021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سیل ٹیکس سے متعلق سوالات اور آمدن کم ظاہر کرنے کا حکم
83155جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

مسئلہ نمبر1: ہم نے ایک کمپنی بنائی ہے، جو سیل ٹیکس رجسٹر ڈ ہے۔ ہم آگے کمپنی میں سامان بیچتے ہیں تو انوائس بنانی پڑتی ہے، جس میں مال کی رقم کے ساتھ سیل ٹیکس کی رقم بھی شامل ہوتی ہے، کمپنی ہماری رقم کے ساتھ سیل ٹیکس کی رقم بھی دیتی ہے، لیکن ہم جو سامان لیتے ہیں وہ اکثر کمپنیاں رجسٹر ڈ نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے ہمیں انوائس نہیں ملتی۔اب اس کی دو صورتیں ہیں:

1۔ وہ جو سیل ٹیکس ہمیں ملتا ہےانوائس نہ ہونے کی وجہ سے اس کو گورنمٹ کےاکاؤنٹ میں جمع کر ادیا جائے۔

2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مارکیٹ میں امپورٹر کی انوائس ملتی ہے، کیونکہ امپورٹر سے بغیر رجسٹرڈ کمپنیاں مال لے لیتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کے پاس سیل ٹیکس انوائس موجود ہوتی ہے ۔ کیا ایسی صورت میں ہم ان سے انوائس لے سکتے ہیں؟ جبکہ ہم نے ان سے مال نہیں لیا۔ اس صورت میں ہماری رقم کمپنی کے امپورٹر اکاؤنٹ میں جاتی ہے اور کمپنی ہمارے نام کی انوائس بنادیتی ہے وہ امپورٹر یہ رقم ہم نے جن کو آگے انوائس دی ہوتی ہے اس کے بغیر رجسٹر ڈ بینک اکاؤنٹ میں جمع کروادیتاہے۔ اس صورت میں امپورٹر کمپنی کو فائدہ ہو تا ہے كہ وہ انہیں انوائس دینے پرگورنمنٹ سے ٹیکس واپس لیتا ہے ۔ اس صورت میں وکیل کو بھی کچھ فائدہ ہو تاہے اور ہمیں بھی  اور امپورٹر بھی کمپنی کمیشن لیتا ہے۔ اس صورت میں ان تینوں کافائدہ اٹھانا جائز ہے؟ اس صورت میں گورنمنٹ کے خزانے میں بھی کچھ رقم جمع ہوتی ہے ۔ اس سے مراد یہ رقم سیل ٹیکس چار لوگوں میں تقسیم ہو تا ہے:1 ) مال بیچنے والا 2 ) وکیل 3) گورنمنٹ 4 ) مال امپورٹ کرنے والا۔

 مسئلہ نمبر 2:  ایک کمپنی ہے جو سیل ٹیکس رجسٹر د ہےاور ایک پروڈکٹ بنارہی ہےاور اس پر وڈکٹ پر سیل ٹیکس صارفین سے وصول کر رہی ہے۔ پروڈکٹ بنانے کے لیے کچھ چیزیں استعمال کر رہی ہے ان میں کچھ چیزیں اپنی ہی دوسری کمپنی سے لے رہی ہے ۔ لیکن وہ کمپنی سیل ٹیکس رجسٹر ڈ نہیں ہے۔ اس صورت میں کمپنی کہتی ہے کہ آپ ہمیں انوائس دے دیں، جبکہ وہ ہم سے مال نہیں لےرہی ، دونوں کمپنیاں ایک ہی آدمی کی ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں اس کو انوائس دینا صحیح ہے ؟ اور انوائس دینے کی صورت میں باہمی رضامندی کے ساتھ کچھ رقم لینا صحیح ہے جو سیل ٹیکس کے علاوہ ہے ؟ اس صورت میں ہم سیل ٹیکس گورنمنٹ کے حساب میں جمع کر ادیتے ہیں۔

مسئلہ نمبر 3: بعض کمپنیاں ایسی ہیں جو سیل ٹیکس رجسٹرڈ تو ہیں، لیکن ان کےپاس نہ تو امپورٹر ہے اور نہ ہی مال۔ وہ کم کمیشن پر انوائس دے دیتی ہیں۔ ان کے ساتھ انوائس کا کام کرنا صحیح ہے ؟ ایسی کمپنیاں گورنمنٹ کے حساب میں کچھ بھی ٹیکس جمع نہیں کراتی۔

وضاحت: سائل نے پہلے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے فون پر بتایا کہ ہم نے امپورٹر سے مال نہیں خریدا ہوتا، بلکہ دیگر خریداروں کی انوائسز ان کے پاس ہوتی ہیں، وہ ہم ان سے کم قیمت پر لیتے ہیں اور اس کے عوض ان کو کچھ رقم دیتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔جاننا چاہیے کہ شریعت ہر معاملے میں سچائی اور امانت ودیانت کا حکم دیتی ہے،اس کے برخلاف خیانت، جعل سازی، دھوکہ دہی اور فریب پر مبنی معاملے کی شدید مذمت کرتی ہے، کسی کمپنی یا فروخت کنندہ سے انوائس بنوانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نے واقعتاً اس کمپنی یا امپورٹر سے مال خریدا ہے، جبکہ حقیقیت میں آپ نے اس سے مال نہیں خریدا ہوتا، اس لیے فرضی انوائس بنانے میں شرعاً جھوٹ، دھوکہ دہی اور خیانت کا ارتکاب کرنا لازم آتا ہے، جس کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔

لہذا امپورٹر سے چونکہ آپ نے مال نہیں خریدا ہوتا، اس لیے اس سے اپنے نام پر مال کی خریداری کی جعلی انوائس بنوانا جائز نہیں، لہذا جو ٹیکس کی رقم آپ نے خریدار سے سیل ٹیکس کے نام سے وصول کی ہے وہ رقم آپ گورنمنٹ کوادا کر دیں۔

2،3۔مذکورہ صورت میں چونکہ دونوں کمپنیاں ایک ہی شخص کی ملکیت ہیں اور اس میں کسی تیسرے فرد کے ساتھ خریدفروخت کا معاملہ بھی نہیں ہوتا کہ جس کے عوض انوائس وصول کی جا سکے،  اس لیے یہاں بھی ٹیکس بچانے کے لیے دوسری کمپنی سے  اپنے نام کی فرضی انوائس بنوا کر ٹیکس بچانا جائز نہیں۔ اسی طرح ایسی کمپنیاں جن کو آپ مال فروخت نہیں کرتے ان سے بھی کم قیمت پر جعلی انوائس بنوا کر کام کرنا ہرگز جائز نہیں، اس سے بھی بچنا لازم ہے۔

البتہ اگر حکومت ناجائز اور ظالمانہ ٹیکس وصول کرے تو اپنے حق کی خاطر ٹیکس کم کرنے کی گنجائش ہے اور ظلم  وزیادتی سے بچنے  کے لیے رشوت دینے کی بھی اجازت ہے، لیکن فی نفسہ چونکہ ٹیکس ادا کرنا عوام کی ذمہ داری ہے، اس لیے جائز اور مناسب حد تک ٹیکس ضرور ادا کرنا چاہیے۔

حوالہ جات
فتاوى قاضيخان (3/326) فخر الدين حسن بن منصور المعروف بقاضيخان،المتوفى سنة 592ھ:
قالوا بذل المال لدفع الظلم عن نفسه و ماله لا يكون في رشوة في حقه و بذل المال لاستخراج حق له على آخر يكون رشوة.
فتح القدير،كتاب الكفالة،فصل في الضمان،ج:6ص:332،مكتبة حقانية:
قال شمس الأئمة:أمّا في زماننا فأكثر النّوائب تؤخذ ظلماً فمن تمكن من دفع الظلم عن نفسه فهو خيرله.
الدرالمختار،كتاب الحظروالإباحة، ج:9ص:612،دارالكتب العلمية:
الكذب مباح لإحياء حقه ودفع الظلم عن نفسه،والمراد التعريض؛لأنّ عين الكذب حرام،قال وهوالحق قال تعالى:﴿قتل الخرّاصون ﴾
الفتاوى الهندية (2/ 61) دار الفكر،بيروت:
رجل قال لغيره: كم أكلت من تمري فقال: أكلت خمسة وحلف وقد كان أكل من تمره عشرة لا يكون حانثا وكاذبا ولو كانت يمينه بطلاق أو عتاق لا يقع شيء وكذا لو قال لرجل: بكم اشتريت هذا العبد فقال: بمائة وقد كان اشتراه بمائتين لا يكون كاذبا ولو حلف على ذلك بطلاق أو عتاق لا يلزمه شيء وهو نظير ما قال: في الجامع إذا حلف أن لا يشتري هذا الثوب بعشرة فاشتراه باثني عشر حنث في يمينه.
شرح النووي على مسلم (2/ 46) دار إحياء التراث العربي - بيروت:
قوله صلى الله عليه و سلم ( أربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خلة منهن كان فيه خلة من نفاق حتى يدعها اذا حدث كذب واذا عاهد غدر واذا وعد أخلف واذا خاصم فجر وفى رواية آية المنافق ثلاث اذا حدث كذب واذا وعد أخلف واذا اؤتمن خان ) .

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

4/شعبان المعظم 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے