021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
الحیات گروپ آف کمپنیز میں سرمایہ کاری (Investment) کا حکم
83134شرکت کے مسائلمعاصر کمپنیوں کے مسائل

سوال

پاکستان میں "الحیات گروپ آف کمپنیز" نام کی ایک رجسٹرڈ کمپنی ہے۔ یہ کمپنی پراپرٹی کے بزنس کے ساتھ ساتھ آئی ٹی،کنسٹرکشن اینڈ بلڈنگ، سپورٹس، ڈیری فارمنگ، رینٹ اے کار  وغیرہ میں شراکت کے لئے انویسٹمنٹ لیتی ہے اور اسں پر اپنے انویسٹرز کو ماہانہ کچھ فیصد واپس کرتی ہے۔  ایگریمنٹ کا دورانیہ 16 مہینے کا ہوتا ہے، کمپنی اس پر مزید آگے چلنے کا اختیار بھی دیتی ہے اور پیسے نکالنے کا بھی۔ کمپنی کامقصد آپ کی رقم ڈبل کر کے واپس کرنا ہے، اگر کسی نے ایک لاکھ دیا تو 16 ماہ میں اس کو دو لاکھ مل جائیں گے، جتنی انویسٹمنٹ دی ہو، 16 ماہ میں اتنا ہی نفع یقینی طور پر ملے گا، ہر ماہ میں کچھ نفع کے ساتھ کچھ (اصل) پیسے واپس ملتے رہیں گے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس کمپنی میں انویسٹمنٹ کرنا جائز ہے یا حرام؟ اس کے علاوہ اگر آپ کی وجہ سے کوئی اور شخص کمپنی میں انویسٹمنٹ کرتا ہے تو آپ کو اس کا کمیشن ملتا ہے، کیا یہ حرام ہو گا؟  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق سرمایہ مضمون (Guaranteed) ہونے اور نفع متعین (Fixed) رقم کی شکل میں  مقرر  ہونے کی وجہ سے اس کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا یا دوسرے لوگوں کو شریک کرانا اور اس پر کمیشن لینا جائز نہیں جس سے بچنا ضروری ہے۔  

واضح رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے سرمایہ کاری کے نام پر لوگوں سے پیسے جمع کر کے فراڈ کرنے کا سلسلہ عام ہوگیا ہے، اس لیے سابقہ تجربات کی روشنی میں کسی کمپنی کو عام لوگوں سے رقم لینے اور لوگوں کو اس میں سرمایہ کاری کرنے کے جواز کا فتویٰ درجِ ذیل شرائط کے ساتھ مشروط ہے:-   

  1. کمپنی حکومت کے پاس باقاعدہ رجسٹرڈ ہو، قانوناً اس کو لوگوں سے سرمایہ لینے اور نفع دینے کا اختیار ہو اور وہ رقم اسی طریقے سے وصول کرے جس طریقے سے رقم وصول کرنے کی قانوناً اجازت ہو۔ کمپنی کے پاس رجسٹریشن کا ثبوت اور سرمایہ لینے کا اجازت نامہ ہونا ضروری ہے۔
  2. کمپنی کا مستند شریعہ بورڈ ہو، یعنی ایسے علمائے کرام اس کے معاملات کی نگرانی کرتے ہوں جو فقہ و فتویٰ میں مہارت کے ساتھ ساتھ متعلقہ فیلڈ کے مسائل سے بھی واقف ہوں۔  
  3. کمپنی کے پاس شریعہ بورڈ کا تحریری تصدیق نامہ ہو۔

آج کل چونکہ بہت سی کمپنیاں جعلی سرٹیفیکیٹس اور فتاوی بھی بناتی ہیں، جس کی پہچان عام لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا؛ اس لیے اگر کوئی کمپنی لوگوں کو قانونی سرٹیفیکیٹس، شریعہ بورڈ کی تصدیق یا کوئی فتویٰ دکھاتی ہو تو ان کو پیسے دینے سے پہلے کسی مستند دار الافتاء میں وہ دستاویزات (Documents) بھیج کر ان کی تحقیق اور تصدیق کرانی چاہیے۔

حوالہ جات
۔

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

      03/شعبان المعظم/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے