021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کے صحن میں وضو خانہ اور واش رومز بنانے کا حکم
83164وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

سوال کے ساتھ منسلکہ صفحہ پر مسجد کے پرانے نقشے اور نئے نقشے کا خاکہ بنایا گیا ہے۔ نئے نقشے میں وضو خانہ مکمل، جبکہ واش روم کا کچھ حصہ پرانے نقشے میں موجود مسجد کے صحن میں آرہا ہے، یہ جائز ہے یا نہیں؟ مسجد کا یہ صحن تقریبا سال ڈیڑھ سال پہلے بنا ہے، مسجد کے متولی یعنی امام صاحب کا کہنا ہے کہ پرانے نقشے میں موجود مسجد کا صحن جب ایک ڈیڑھ سال پہلے ہم بنا رہے تھے تو اس وقت ہماری نیت یہ تھی کہ اس کا درمیان والا حصہ شرعی مسجد ہے، جبکہ شمال اور جنوب کا حصہ شرعی مسجد نہیں ہے۔

عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ وہ مکمل صحن ایک طرز پر بنا ہے، اس میں شمال اور جنوب کے حصوں کو الگ نہیں بنایا گیا، محلہ میں شاید کسی کو بھی معلوم نہیں کہ شمال اور جنوب کا حصہ مسجدِ شرعی نہیں، میں خود پچھلے سال اعتکاف میں بیٹھا تھا تو صحن کے شمالی اور جنوبی حصوں کو بھی مسجد سمجھ کر وہاں آتا جاتا تھا۔

میں نے امام صاحب سے پوچھا کہ آپ جب مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو دعا کہاں سے پڑھتے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ جہاں سے صحن کی حدود شروع ہوتی ہیں، میں نے کہا کہ یہ تو آپ کے بقول شرعی مسجد نہیں ہے تو انہوں نے فرمایا کہ آپ مسئلہ کی تحقیق کرلیں، اگر یہاں وضو خانہ اور واش روم بنانا صحیح نہیں ہے تو ہم ختم کرلیں گے، البتہ ہم نے صحن بناتے وقت یہ نیت کی تھی کہ شمال اور جنوب کا حصہ مسجدِ شرعی میں داخل نہیں ہوگا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں جب متولی نے مکمل صحن ایک ہی طرز پر بناکر لوگوں کے استعمال کے لیے چھوڑ دیا تھا اور لوگ پورے صحن کو مسجدِ شرعی سمجھ رہے تھے، شمالی اور جنوبی حصوں کو نہ تو الگ بنایا گیا تھا، نہ ہی وہاں کوئی ایسی علامت لگائی گئی تھی جس سے ان حصوں کا مسجدِ شرعی میں داخل نہ ہونا معلوم ہو تو اب متولی اپنی جو نیت بتارہا ہے، اس کا اعتبار نہیں ہوگا اور اس صحن کے کسی بھی حصے میں وضو خانہ اور واش روم بنانا جائز نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
الدر المختار (4/ 357):
( وإذا جعل تحته سردابا لمصالحه ) أي المسجد ( جاز ) كمسجد القدس..…… فرع: لو بنى فوقه بيتا للإمام  لا يضر؛ لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع، ولو قال:       عنیت ذلك لم یصدق، تاترخانیة.  فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره ؟ فيجب هدمه ولو على جدار المسجد ولا يجوز أخذ الأجرة منه ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا ولا سكنى، بزازية.
رد المحتار (4/ 357):
قوله ( أو جعل فوقه بيتا الخ ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا، إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجدا فيما إذا لم يكن وقفا على مصالح المسجد، وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفا عليه صار مسجدا  آه، شرنبلالية……..…قوله (أما لو تمت المسجدية) أي بالقول، على المفتى به أو بالصلاة فيه، على قولهما ط. وعبارة التاترخانية: وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس، ثم جاء بعد ذلك يبني لا يترك اه.
البحر الرائق (5/ 271):
وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله  تعالی { وأن المساجد لله } الجن 18، بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفا لمصالح المسجد؛ فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس،  هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية .  وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتا على سطح المسجد لسكنى الإمام، فإنه لا يضر في كونه مسجدا؛ لأنه من المصالح.  
فإن قلت: لو جعل مسجدا، ثم أراد أن يبني فوقه بيتا للإمام أو غيره، هل له ذلك؟  قلت: قال في التتارخانية: إذا بنى مسجدا وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس، ثم جاء بعد ذلك يبني لا يتركه .  وفي جامع الفتاوى إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لا يصدق اه،  فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره؟

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     06/شعبان المعظم/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے