83187 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
میرے شوہر نے مجھے 14 دسمبر 2023ء کو مجھے وٹس ایپ پر طلاق کے حوالے سے وائس میسج بھیجا، میں نے میسج سننا شروع کیا، یہاں تک سنا کہ اس نے کہا: "عائشہ تنویر میں"۔ یہاں تک سننے کے بعد مجھے پتا چلا کہ انہوں نے طلاق بھیجی ہے تو میں نے اپنے وکیل کو کال کی، انہوں نے کہا میسج مجھے بھیجو، انہوں نے میسج کو سنا، پھر جب میں نے کال کی اور پوچھا کہ طلاق ہی ہے؟ تو انہوں نے جوابًا کہا: ہاں ! میں نے ان سے پوچھا کتنی ہیں؟ انہوں نے کہا: تین ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ طلاقیں ہوگئی ہیں، اگرچہ وہ الفاظ میں نے اپنے کانوں سے نہیں سنے؟ نیز میں حاملہ ہوں، اگر طلاق ہوگئی ہے تو عدت کے بارے میں بھی بتادیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ تین طلاق ایک ساتھ دینا جائز نہیں، گناہ کا کام ہے، لیکن اگر کوئی شخص ایسا کرے تو تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے اور آپ کے شوہر نے واقعتاً آپ کو وائس میسج کے ذریعے تین طلاقیں دی ہیں تو وہ تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور آپ دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے، جس کے بعد نہ رجوع ہوسکتا ہے، نہ ہی آپ دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح ممکن ہے۔ طلاق واقع ہونے کے لیے بیوی کا اس کو خود سننا ضروری نہیں۔ جہاں تک عدت کا تعلق ہے تو آپ کی عدت بچے کی ولادت تک ہوگی، بچے کی ولادت سے آپ کی عدت مکمل ہوجائے گی، اس کے بعد آپ دوسری جگہ جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔
حوالہ جات
القرآن الکریم:
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ } الآیة [البقرة: 230]
الدر المختار (3/ 232):
( والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين ) في طهر واحد ( لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه ، أو ) واحدة في ( حيض موطوءة ).. الخ
رد المحتار (3/ 232,233):
( قوله والبدعي ) منسوب إلى البدعة والمراد بها هنا المحرمة لتصريحهم بعصيانه، بحر. ( قوله ثلاثة متفرقة ) وكذا بكلمة واحدة بالأولى ، وعن الإمامية : لا يقع بلفظ الثلاث ولا في حالة الحيض لأنه بدعة محرمة ….وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث…….( قوله في طهر واحد ) قيد للثلاث والثنتين ….الخ
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
06/شعبان المعظم/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |