021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمانے والی بیوی کا نان نفقہ شوہر پر واجب ہوگا یا نہیں؟
83166نان نفقہ کے مسائلبیوی کا نان نفقہ اور سکنہ ) رہائش (کے مسائل

سوال

اگر میاں بیوی دونوں کماتے ہوں تو کیا شوہر اس وجہ سے بیوی کا خرچہ برداشت نہیں کرے گا کہ اس کی اپنی تنخواہ اور کمائی ہے؟ بیوی کے تنخواہ دار ہونے اور کمانے کی وجہ سے اس کی کون کون سی ذمہ داریاں شوہر پر نہیں ہوں گی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نکاح کے بعد شوہر کے ساتھ رہنے کی وجہ سے بیوی کے نان نفقہ، لباس اور رہائش کا خرچہ شوہر پر لازم ہوتا ہے، چاہے بیوی کے پاس مال ہو یا نہ ہو۔ ملازمت کرنے والی خاتون اگر شوہر کی اجازت سے ملازمت کرتی ہے تو اس کا نان نفقہ شوہر پر لازم ہوگا، الا یہ کہ شوہر ملازمت کی اجازت اس شرط کے ساتھ دے کہ وہ اپنا نان نفقہ خود برداشت کرے گی۔ (کذا فی حاشیۃ امداد الاحکام:2/887)

اگر شوہر بیوی کو ملازمت سے روکتا ہو اور وہ اس کے باوجود ملازمت کے لیے باہر جاتی ہو تو پھر "ناشزہ" ہونے کی وجہ سے اس کا نان نفقہ شوہر پر واجب نہیں ہوگا، کما هو المنقول وقد رجحه العلامة الرافعي رحمه الله تعالیٰ في تقریراته۔ البتہ اگر شوہر شادی سے پہلے ملازمت کی اجازت دینے کا وعدہ کرے اور پھر شادی کے بعد اجازت نہ دے جس کی وجہ سے بیوی بغیر اجازت کے ملازمت کے لیے جائے (جوکہ درست نہیں اور بیوی کے لیے اس سے بچنا ضروری ہے) تو اس صورت میں دن کا نفقہ شوہر پر لازم نہیں ہوگا، لیکن رات کا نفقہ اور رہائش اس پر لازم ہوگی؛ عملًا بما قاله البعض من أنها تکون ناشزة ما دامت خارجة، ولأن الخروج في الیوم صارت مستحقا لها في الجملة بالوعد بالإذن قبل النکاح، کالأمة. والله أعلم بالصواب

حوالہ جات
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 180):
وفي القهستاني: فمن النواشز …..ما إذا سلمت نفسها في النهار أو الليل فقط فلا نفقة، كالمحترفات لم تكن مع الزوج إلا بالليل.
النهر الفائق (2/ 507):
ولو سلمت نفسها بالليل دون النهار أو عكسه كانت ناشزة. قال في (المجتبي): وبه عرف جواب مسألة في زماننا هي ما لو تزوج من المحترفات التي تكون في النهار في مصالحها وبالليل عنده فإنه لا نفقة لها انتهى. وفيه نظر سيأتي إيضاحه.
الدر المختار (3/ 577):
ولو سلمت نفسها بالليل دون النهار أو عكسه فلا نفقة لنقص التسليم. قال في المجتبى: وبه عرف جواب واقعة في زماننا أنه لو تزوج من المحترفات التي تكون بالنهار في مصالحها وبالليل عنده فلا نفقة لها انتهى. قال في النهر: وفيه نظر.
رد المحتار (3/ 577):
قوله (قال في النهر وفيه نظر) وجهه أنها معذورة لاشتغالها بمصالحها، بخلاف المسألة المقيس عليها، فإنها لا عذر لها، فنقص التسليم منسوب إليها، أفاده ح. وفيه أن المحبوسة ظلما والمغصوبة وحاجة الفرض مع غيره معذورة وقد سقطت نفقتها. وفي الهندية في الأمة إذا سلمها السيد لزوجها ليلا فقط فعليه نفقة النهار وعلى الزوج نفقة الليل، وقياسه هنا كذلك ط.
قلت: وسيذكر الشارح قبيل قوله "وتفرض لزوجة الغائب" عن البحر أن له منعها من الغزل وكل عمل ولو قابلة ومغسلة اه. وأنت خبير بأنه إذا كان له منعها من ذلك، فإن عصته وخرجت بلا إذنه كانت ناشزة ما دامت خارجة، وإن لم يمنعها لم تكن ناشزة، والله تعالى أعلم. 
تقریرات الرافعي (3/248):
(قوله: وفیه أن المحبوسة ظلما والمغصوبة الخ) لایظهر وروده علی ما نحن فیه، فإن عدمها لعدم التسلیم أصلا. ویظهر أیضًا أن مسألة الأمة غیر واردة؛ لأنها وإن وجبت مدة التبوئة مع کون التسلیم ناقصا، إلا أنه قیل بذلك لکون حق السید أقوی، فاکتفي بالناقص، وحینئذٍ فالواجب الرجوع للمنقول من أنه لاتجب إلا بالتسلیم الکامل في غیر الأمة، ومسألة المحترفات بلا إذن داخلة فیه.

   عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     07/شعبان المعظم/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے