021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انشورنس کمپنی کو ڈیٹا انٹری کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی میں ملازمت کا حکم
83208سود اور جوے کے مسائلانشورنس کے احکام

سوال

انشورنس کمپنی کو ڈیٹا انٹری کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی میں ملازمت جائز ہے یا نہیں ؟

تنقیح: سائل سے زبانی معلومات کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ خود اس کمپنی کا ملازم نہیں ہے، البتہ ان کی دی گئی معلومات کے مطابق   یہ کمپنی  یہاں پاکستان سے  امریکہ کی  مختلف انشورنس کمپنیوں کو ڈیٹا انٹری کی خدمات فراہم کرتی ہے۔ اس کے کام کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ امریکہ کی مختلف  انشورنس کمپنیوں نے اپنے اپنے سافٹ ویئرز بنائے ہوتے ہیں ،  اور انہیں اس کمپنی کے حوالے کیا ہوا ہوتا ہے جن میں ان کا سارا ڈیٹا محفوظ کیا جاتا ہے    مثلا انشورنس کی پالیسی خریدنے والے کسٹمرز  کا ذاتی ڈیٹا،  پالیسی خریدنے کاڈیٹا اور ریکارڈ ، نیز یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کس کسٹمر   نےکتنی پریمئم (انشورنس پالیسی کی قسط)  خریدی ہے ، اس کے علاوہ انشورنس کمپنیوں کے  دیگر مختلف دفتری کاموں  کا ڈیٹا بھی    محفوظ کیا جاتا ہے ، گویا انشورنش کمپنیوں   کا  سارا انتظامی کام یہی مقامی کمپنی کرتی ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 واضح رہے شریعتِ مطہرہ میں جس طرح سود کا لین دین حرام ہے اسی طرح سودی معاملات میں تعاون اور خدمات فراہم کرنا بھی حرام ہے ۔ آپ نے مذکورہ کمپنی کے کام کی جو تفصیلات بتائی ہیں ، اگر وہ واقعتا درست ہیں تو اس کا تعلق اگرچہ براہ راست سودی معاملات اور لین دین سے  نہیں لیکن سودی  اور غرر پر مشتمل معاملے میں تعاون ضرور ہے ، جن میں سود پر مشتمل انشورنس پالیسیوں کا ڈیٹا محفوظ کرنا، کسٹمرز کے ریکارڈ کا جائز ہ لینا   اور اس کی رپورٹس تیار کرنا، پھر ان رپورٹس کا سودی معاملات میں استعمال ہونا وغیرہ شامل   ہیں ۔

مذکورہ بالا ناجائز امور کی وجہ سے آپ کا اس کمپنی میں ملازمت کرنا جائز نہیں ، لہذا دوسری جائز ملازمت تلاش کرنے  کوشش جاری رکھیں ۔

حوالہ جات
   صحيح مسلم (3/ 1219):
( 1598 ) حدثنا محمد بن الصباح وزهير بن حرب وعثمان بن أبي شيبة قالوا حدثنا هشيم أخبرنا أبو الزبير عن جابر قال  لعن رسول الله صلى الله عليه و سلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال هم سواء.
شرح النووي على مسلم (5/ 468):
وفيه : تحريم الإعانة على الباطل۔
تکملۃ فتح الملھم)1/575(:
 وقال فی تکملۃ فتح الملھم : روی الإمام المسلم رحمہ اللہ  عن عبد اللہ ،قال : لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربا ، ومؤکلہ ،قال : قلت: وکاتبہ وشاھدیہ؟ قال : إنما نحدث بما سمعنا .قولہ : (وکاتبہ) : لأن کتابۃ الربا إعانۃ علیہ ،ومن ھنا ظھر أن التوظف فی البنوک الربویۃ لا یجوز ، فإن کان عمل الموظف فی البنک ما یعین علی الربا ،کالکتابۃ أو الحساب ،فذلک حرام لوجھین :الأول:إعانۃ علی المعصیۃ ،والثانی : أخذ الأجرۃ من المال الحرام  .ثم قال : فإذا وجد بنک معظم دخلہ حلال ،جاز فیہ التوظف للنوع الثانی من الأعمال ، واللہ أعلم .
:(فقہ البیوع:2/1032)
فإن كانت الوظيفة تتضمن مباشرة العمليات الربوية، أو العمليات المحرمة الأخرى، فقبول هذه الوظيفة حرام، وذلك مثل: التعاقد بالربا أخذاً أو عطاء، أو حسم الكمبيالات، أو كتابة هذه العقود، أو التوقيع عليها، أو تقاضي الفوائد الربوية، أو دفعها، أو قيدها في الحساب بقصد المحافظة عليها، أو إدارة البنك، أو إدارة فرع من فروعه، فإنّ الإدارة مسؤولة عن جميع نشاطات البنك التي غالبها حرام.و من کان مؤظفا  فی البنک بھذا لشکل ، فإن راتبہ الذی یأخذہ من البنک کلہ من الأکساب المحرمۃ۔

صفی اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

08/شعبان المعظم/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی اللہ بن رحمت اللہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے