021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کا بیوی کو ملازمت کی اجازت دینے کے عوض تنخواہ مانگنا
83167نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

اگر کوئی لڑکی گورنمنٹ جاب کرتی ہو اور شادی سے پہلے لڑکے کی طرف سے جاب اور ڈاکٹری کی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہو اور تنخواہ پر بھی رضامندی ظاہر کی ہو کہ لڑکی خود رکھے، کہیں بھی استعمال کرے تو کوئی مسئلہ نہیں، مگر شادی اور بیوی بننے کے بعد اس کی تنخواہ کا حساب کتاب رکھتا ہو اور اس کا مطالبہ کرتا ہو تو کیا یہ درست ہے؟ شوہر کا بیوی کی تنخواہ کا مطالبہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ اسی طرح شوہر کی والدہ یا کوئی اور بیوی کی تنخواہ کا حساب کتاب مانگ سکتا ہے؟

اگر شوہر بیوی سے کہے کہ آپ میری اجازت سے نوکری کرتی ہیں تو تنخواہ بھی مجھے دیں، اگر تنخواہ مجھے نہیں دینی تو نوکری نہ کریں، ورنہ ہم ساتھ نہیں رہ سکیں گے، آپ کے ساتھ میرا گزارہ نہیں ہوگا، آپ اپنے ماں باپ کے گھر واپس چلی جائیں۔ اس حوالے سے شریعت کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بیوی کی تنخواہ اس کی ذاتی ملکیت ہے، شوہر یا اس کے گھر والے اس سے تنخواہ کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔ اگر لڑکا شادی سے پہلے لڑکی سے تعلیم اور ملازمت جاری رکھنے کی اجازت دینے کا وعدہ کرے تو بلاعذر اس وعدہ کی خلاف ورزی کرنا درست نہیں، البتہ اگر کوئی حقیقی عذر ہو جس کی وجہ سے وہ شادی کے بعد بیوی کو ملازمت کی اجازت نہیں دیتا تو یہ اس کا حق ہے اور بیوی پر اس کی اطاعت واجب ہوگی۔ لیکن شوہر کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تنخواہ نہ دینے پر بیوی کو طلاق دینے اور چھوڑنے کی دھمکی دے یا اس کے ساتھ برا سلوک کرے۔ اگر شوہر اپنی بیوی کے نان نفقہ کا انتظام کرتا ہو تو اس کو ملازمت نہیں کرنی چاہیے، الا یہ کہ کوئی ایسی ملازمت ہو جو لوگوں کی ضرورت ہو اور شرعا وہ کام خواتین ہی کرسکتی ہوں (مثلا خواتین کا علاج) تو درجِ ذیل شرائط پائی جانے کی صورت میں ایسی ملازمت میں کوئی حرج نہیں۔

  1. شوہر کی اجازت ہو۔ 
  2. بچوں اور اہلِ خانہ کے شرعی حقوق پامال نہ ہوں۔ 
  3. راستے میں آتے جاتے ہوئے، اور دورانِ ملازمت شرعی پردے کا اہتمام کرے۔
  4. بناؤ سنگھار نہ کرے اور خوشبو نہ لگائے۔
  5. راستے میں آتے جاتے ہوئے، اور دورانِ ملازمت نامحرم کے سامنے بلاضرورت آنے اور بات چیت سے حتی الامکان اجتناب کرے، اور جب بات چیت کی ضرورت ہو تو حتی الامکان آواز کی نزاکت ولطافت کو ختم کرے اور کسی قسم کی بداخلاقی کے بغیر بتکلف پھیکے انداز میں بات چیت کرے۔
  6. مسافتِ سفر (78 کلومیٹر) یا اس سے زیادہ محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔

رہی یہ بات کہ شوہر بیوی کو ملازمت کی اجازت دے کر اس کے عوض تنخواہ کا مطالبہ کرسکتا ہے یا نہیں؟ تو اس کے جواب سے پہلے یہ بات ذکر کرنا مناسب ہے کہ نکاح کے بعد مہر کی بر وقت ادائیگی کر کے شوہر کو بیوی پر "حق الحبس" حاصل ہوجاتا ہے، یعنی شرعا وہ بیوی کو اپنے گھر میں رہنے کی پابند بناسکتا ہے، بیوی اس کی اجازت کے بغیر بلا ضرورت باہر نہیں جاسکتی، اسی وجہ سے اس کا نان نفقہ شوہر پر واجب ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ "حق الحبس" ان حقوق میں سے ہے جن سے دستبرداری کا معاوضہ لینا جائز ہوتا ہے یا ان حقوق میں سے ہے جن کا معاوضہ لینا جائز نہیں ہوتا؟ تلاشِ بسیار کے باوجود کتبِ فقہ میں اس حوالے سے کوئی صریح جزئیہ نہیں ملا، البتہ فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے تنازل عن الحقوق کی جو بحث ذکر فرمائی ہے، اس میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا حق نہیں جس سے دستبرداری کا مستقل معاوضہ لینا جائز ہو، جس کے چند دلائل درجِ ذیل ہیں:  

  1. "تنازل" یعنی دستبرداری کے طریقے پر اس حق کا معاوضہ لینا جائز ہوتا ہے جو "حقوقِ اصلیہ" میں سے ہو، جبکہ شوہر کا حق الحبس "حقوقِ ضروریہ" میں سے ہے، جن کے عوض کچھ لینا جائز نہیں۔ "حقوقِ ضروریہ" میں سے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بیوی آزاد انسان ہے، عقلاً شوہر کو یہ حق نہیں کہ وہ اسے گھر میں رہنے کی پابند بنائے، لیکن شریعت نے شوہر کو یہ حق اس لیے دیا ہے کہ اسے جب بھی ضرورت ہو وہ نکاح کا مقصد  اور اپنی ضرورت (حقِ استمتاع) پوری کرسکے، اسے کسی ضرر اور مشقت کا سامنا نہ ہو۔ اگر شوہر بیوی کو ملازمت کی اجازت دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے بیوی کے باہر جانے سے کوئی ضرر نہیں، لہٰذا اس کا معاوضہ لینا جائز نہیں ہوگا۔  
  2. فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے بیوی کے "حق القسم" کو حقوقِ ضروریہ میں شمار کیا ہے اور اس کا معاوضہ لینے کو ناجائز فرمایا ہے، اس پر قیاس کا تقاضا ہے کہ شوہر کے "حق الحبس" کا معاوضہ لینا بھی جائز نہ ہو، جیسا کہ نمبر (1) میں اس کی وضاحت گزرچکی۔
  3. فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے "تنازل" یعنی دستبرداری کے طریقے پر جن حقوقِ اصلیہ کا معاوضہ لینے کو جائز فرمایا ہے وہ یا تو ایسے حقوق ہیں جو ساقط کرنے سے ساقط ہوتے ہیں، جیسے حقِ قصاص، حقِ بقائے نکاح، یا ساقط کرنے سے ساقط تو نہیں ہوتے ، لیکن حقوقِ جاریہ نہیں ہوتے، بلکہ ایک ہی دفعہ میں وصول ہوجاتے ہیں، جیسے حقِ میراث۔  جبکہ شوہر کا "حق الحبس" نہ تو ساقط کرنے سے ساقط ہوسکتا ہے، نہ ہی ایک ہی دفعہ میں وصول ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک جاری حق ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ شوہر اجازت دینے کے باوجود جب بھی چاہے، بیوی کو گھر میں رہنے کا پابند کرسکتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا حق ساقط کرنے سے بھی ساقط نہیں ہوتا۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ شوہر اگر خلع اور طلاق علی المال کے ذریعے حقِ استمتاع سے دستبردار ہو کر اس کا عوض لے سکتا ہے تو "حق الحبس" سے دستبرداری کا عوض  کیوں نہیں لے سکتا؟ حالانکہ حق الحبس بھی در حقیقت حقِ استمتاع سے دستبرداری ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خلع اور طلاق علی المال کی صورت میں شوہر اپنے حقِ استمتاع سے مستقل اور کلی طور پر دستبردار ہوتا ہے اور یہ حق ایسا ہے کہ کلی طور پر ساقط کرنے سے ساقط ہوجاتا ہے، اس لیے اس کا معاوضہ لینا درست ہے، بر خلاف "حق الحبس" کے کہ اس کو ختم کرنے کی صورت میں وہ حقِ استمتاع سے کلی طور پر دستبردار نہیں ہوتا اور اس کو ساقط نہیں کرتا، بلکہ وقتی طور پر مزاحمت ختم کرتا ہے۔ لہٰذا وقتی طور پر حقِ استمتاع استعمال نہ کرنے کو اس سے کلی طور پر دستبردار ہونے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ واللہ أعلم بالصواب  

البتہ اگر بیوی شوہرکی اجازت کے بغیر ملازمت کے لیے جاتی ہو تو ایسی صورت میں اس کا نان نفقہ یا تو بالکل شوہر پر لازم نہیں ہوتا یا صرف رات کا نفقہ لازم ہوتا ہے (جس کی تفصیل سوال نمبر:1 کے جواب میں گزرچکی ہے)، اگر وہ اس کے باوجود نان نفقہ دیتا ہو تو اس کے بقدر رقم کا مطالبہ بیوی سے کرسکتا ہے۔

حوالہ جات
القرآن الکریم:
{ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ} [النساء: 32].
الفتاوى الهندية (2/ 329):
وكذا الحكم في الزوجين إذا لم يكن لهما شيء ثم اجتمع بسعيهما أموال كثيرة فهي للزوج وتكون المرأة معينة له، إلا إذا كان لها كسب على حدة فهو لها، كذا في القنية.
أحکام القرآن-للتهانوی-( 3/474-471):
وبالجملة فاتفقت مذاهب الفقهاء وجمهور الأمة علی أنه لايجوز للنساء الشواب کشف الوجوه والأکف بين الأجانب،  ويستثنی منه العجائز لقوله تعالیٰ:"القواعد من النساء"، الآية، والضرورات مستثناة فی الجميع بالإجماع. فلم يبق للحجاب المشروع إلا الدرجتان الأولیتان: (1) الأولیٰ القرار فی البيوت وحجاب الأشخاص، وهو الأصل المطلوب. (2) والثانية خروجهن لحوائجهن  مستترات بالبراقع والجلابيب وهو الرخصة للحاجة.  
ولاشك أن کلتا الدرجتين منه مشروعتان، غير أن الغرض من الحجاب لما کان سد ذرائع الفتنة، وفی خروجهن من البيوت ولو للحوائج والضرورات کان مظنة فتنة، شرط عليهن الله ورسوله صلی الله عليه وسلم شروطاً يجب عليهن التزامها عند الخروج: -
1.أن یترکن الطیب ولباس الزینة عند الخروج، بل یخرجن وهن تفلات، کما مر فی کثیر من روایات الحدیث مما ذکرنا. 
2.أن لايتحلين حلية فيها جرس يصوت بنفسه، کما فی حديث رقم42.
3.أن لايضربن بأرجلهن ليصوت الخلخال وأمثاله من حليهن، کما هو منصوص القرآن.
4.أن لا يتبخترن فی المشية کيلا تکون سبباً للفتنة، کما مر فی حديث رقم15  .
5.أن لا تمشین فی وسط الطریق، بل حواشیها، کما فی حدیث رقم38.
6.أن يدنين عليهن من جلابیبهن بحیث لایظهر شئ منهن الا عیناً واحدةً لرؤیة الطریق، کما مر من تفسیر ابن عباس لهذه الآیة.
7.أن لایخرجن إلا بإذن أزواجهن، کما فی حدیث رقم 37 .
8.أن لایتکلمن أحداً إلا بإذن أزواجهن، کما فی حدیث رقم50.
9.وإذا تکلمن أحداً من الأجانب عند الضرورة فلایخضعن بالقول فیطمع الذي في قلبه مرض، کما هو منصوص الکتاب.
10 .   وأن يغضضن أبصارهن عن الأجانب عند الخروج.
 .11أن لایلجن فی مزاحم الرجال، کمایستفاد من حدیث ابن عمر رضی الله عنه، لو ترکنا هذا الباب للنساء! (رقم25).
فهذه أحد عشر شرطاً وأمثالها، یجب علی المرأة التزامها عند خروجها من البیت للحوائج والضروریات، فحیث فقدت الشروط منعن من الخروج أصلًا. 
بحوث في قضایا فقهیة معاصرة (1/337):
أخرج مسلم عن أبي سعید الخدري رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: "لاتسافر المرأة فوق ثلاث إلا ومعها زوجها أو ذو رحم محرم منها". هذا الحکم الصریح قد أخذ به جمهور الفقهاء، حتی إنهم لم یجوزوا لها أن تسافر بدون محرم لضرورة الحج. وإن الدراسة والعمل في البلاد الأجنبیة لیس من ضرورة النساء المسلمات في شیئ؛ فإن الشریعة لم تأذن للمرأة بالخروج من دارها إلا لحاجة ملحة، وقد ألزمت أباها أو زوجها بأن یکفل لها جمیع حاجاتها المالیة، فلیس لها أن تسافر بغیر محرم لمثل هذه الحوائج…… الخ
رد المحتار (1/ 100):
مطلب في فرض الكفاية وفرض العين: ….. قال في تبيين المحارم: وأما فرض الكفاية من العلم ، فهو كل علم لا يستغنى عنه في قوام أمور الدنيا كالطب والحساب.…. الخ
بدائع الصنائع (2/ 288):
وليس للزوج منعها عن السفر والخروج من منزله وزيارة أهلها قبل إيفاء المهر لأن حق الحبس إنما يثبت لاستيفاء المستحق فإذا لم يجب عليها تسليم النفس قبل إيفاء المهر لم يثبت للزوج حق الاستيفاء فلا يثبت له حق الحبس، وإذا أوفاها المهر فله أن يمنعها من ذلك كله إلا من سفر الحج إذا كان عليها حجة الإسلام ووجدت محرما وله أن يدخل بها؛ لأنه إذا أوفاها حقها يثبت له حق الحبس لاستيفاء المعقود عليه.
الدر المختار (3/ 603):
وفي البحر: له منعها من الغزل وكل عمل ولو تبرعا لأجنبي ولو قابلة أو مغسلة؛ لتقدم حقه على فرض الكفاية.
رد المحتار (3/ 603):
قوله (وكل عمل ولو تبرعا لأجنبي) كذا ذكره في البحر بحثا حيث قال: وينبغي عدم تخصيص الغزل، بل له أن يمنعها من الأعمال كلها المقتضية للكسب؛ لأنها مستغنية عنه لوجوب كفايتها عليه، وكذا من العمل تبرعا لأجنبي بالأولى اه. ……..قلت: ثم إن قولهم "له منعها من الغزل" يشمل غزلها لنفسها، فإن كانت العلة فيه السهر والتعب المنقص لجمالها، فله منعها عما يؤدي إلى ذلك لا ما دونه، وإن كانت العلة استغناءها عن الكسب كما مر ففيه أنها قد تحتاج إلى ما لا يلزم الزوج شراؤه لها. والذي ينبغي تحريره أن يكون له منعها عن كل عمل يؤدي إلى تنقيص حقه أو ضرره أو إلى خروجها من بيته، أما العمل الذي لا ضرر له فيه فلا وجه لمنعها عنه، خصوصا في حال غيبته من بيته، فإن ترك المرأة بلا عمل في بيتها يؤدي إلى وساوس النفس والشيطان أو الاشتغال بما لا يعني مع الأجانب والجيران.  قوله (ولو قابلة ومغسلة) أي التي تغسل الموتى كما في الخانية، ونقل في البحر عنها تقييد خروجها بإذن الزوج بعدما نقل عن النوازل أن لها الخروج بلا إذنه، واقتصر عليه في الفتح، و قوي في البحر الأول بما علل به الشارح.  قوله ( على فرض الكفاية ) بخلاف فرض العين،    كالحج، فلها الخروج إليه مع محرم.
رد المحتار (4/ 520):
و حاصله أن ثبوت حق الشفعة للشفيع وحق القسم للزوجة وكذا حق الخيار في النكاح للمخيرة إنما هو لدفع الضرر عن الشفيع والمرأة، وما ثبت لذلك لا يصح الصلح عنه؛ لأن صاحب الحق لما رضي علم أنه لا يتضرر بذلك، فلا يستحق شيئا. أما حق الموصى له بالخدمة فليس كذلك بل ثبت له على  وجه البر والصلة، فيكون ثابتا له أصالة، فيصح الصلح عنه إذا نزل عنه لغيره، ومثله ما مر عن الأشباه من حق القصاص والنكاح والرق حيث صح الاعتياض عنه؛ لأنه ثابت لصاحبه أصالة لا على وجه رفع الضرر عن صاحبه. ولا يخفى أن صاحب الوظيفة ثبت له الحق فيه بتقرير القاضي على وجه الأصالة لا على وجه رفع الضرر، فإلحاقها بحق الموصى له بالخدمة وحق القصاص وما بعده أولى من إلحاقها بحق الشفعة والقسم، وهذا كلام وجيه لا يخفى على نبيه. 
بحوث في قضایا فقهیة معاصرة (1/78-74):
والذي یتحصل من استقراء الحقوق التي تحدث الفقهاء عن الاعتیاض عنها أنها تنقسم إلی نوعین: 1- الحقوق الشرعیة: وهي التي تثبت من قبل الشارع، ولا مدخل في ثبوتها للقیاس.
2- الحقوق العرفیة: وهي التي تثبت بحکم العرف، وأقره الشرع. ثم إن کل واحد من هذین النوعین ینقسم إلی قسمین: الأول: الحقوق التي شرعت لدفع الضرر عن أصحابها. الثاني: الحقوق التي شرعت أصالة…………….. الخ
1-الحقوق الضروریة: فأما القسم الأول من هذه الحقوق الشرعیة فمثاله: حق الشفعۃ، فإنه لیس حقا ثابتا بالأصالة؛ لأن الأصل أن المتبایعین إذا عقدا بیعا عن تراضٍ منهما فلا حق للثالث أن یتدخل بینهما، ولکن الشریعة إنما أثبتت حق الشفعة للشریك والخلیط والجار لدفع الضرر عنهم. وکذلك حق المرأة في قسم زوجها لها، إنما شرع لدفع الضرر عنها، وإلا فالزوج له الخیار في أن یتمتع بزوجته ویبیت عندها متی شاء. ویدخل فیه الحضانة وولایة الیتیم وخیار المخیرة. وحکم هذا النوع من الحقوق أنه لایجوز الاعتیاض عنها، لا عن طریق البیع ولا عن طریق الصلح والتنازل بمال…………..الخ
2-الحقوق الأصلیة: وأما النوع الثاني من الحقوق الشرعیة فهي الحقوق التي تثبت لأصحابها أصالة، لا علی وجه دفع الضرر فقط، مثل: حق القصاص، وحق تمتع الزوج بزوجته ببقاء نکاحها معه، وحق الإرث وما إلی ذلك. وحکم هذا النوع من الحقوق أنه لایجوز الاعتیاض عنها بطریق البیع………… ولکن هذه الحقوق یجوز الاعتیاض عنها بطریق الصلح والتنازل بمال، بمعنی أن المستحق في هذه الحقوق یمسك عن استعمال حقه بمال یطالب به من یتضرر باستعمال ذلك الحق……….. وکذلك الزوج له الحق في أن یتمتع بزوجته ببقاء نکاحها معه، ولکنه یمسك عن استعمال هذا الحق بمال تفتدي به المرأة، وهو الخلع والطلاق علی مال، وذلك جائز بنص القرآن، وعلی ذلك انعقد الإجماع.
شرح القواعد الفقهية ــ للزرقا (ص: 152):
( تنبيه ): لم أر من ذكر ضابطاً جامعاً لما يسقط من الحقوق بإسقاط صاحبه له وما لا يسقط، وبعد إعمال الفكر وإجالة النظر في الفروع السابقة ظهر لي من خلالها ضابط يغلب على الظن
صدقه وصحته، وهو: أن کل ما کان حقا، صاحبه عامل فیه لنفسه، وکان قائما حین الإسقاط خالصاً للمسقط أو غالباً، ولم يترتب على إسقاطه تغيير وضع شرعي، وليس متعلقاً بتملك عين على وجه متأكد يسقط بالإسقاط وما لا فلا……………..قولنا "قائما حين الإسقاط" خرج به خيار الرؤية، فإنه لا يسقط بالإسقاط؛ لأنه غير قائم للحال لأنه يثبت بعد الرؤية لا قبلها فإذا أسقطه قبلها لا يسقط بالقول بل بالفعل عند أبي يوسف كما تقدم، وكذا حق الشفعة قبل البيع فلو أسقطه الشفيع قبله لا يسقط لأنه إنما يثبت بعد البيع، وخرج به الاستحقاق في الوقف قبل بدو الغلة فإنه لا يسقط؛ لأنه ليس قائما للحال؛ لأن حق المستحق يتعلق بالغلة عند ظهورها لا قبله، وخرج به حق انتفاع المستعير بالعارية، فإنه لا يسقط؛ لأن المنفعة ليست قائمة، بل تحدث شيئاً فشيئاً على ملك المستعير كما في الإجارة، ومثله حق الزوجة في القسم وحق الحاضنة في الحضانة، فإنهما لا يسقطان؛ لأنهمايتجددان آناً فآناً.

   عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     07/شعبان المعظم/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے