021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آڑھتی کا زمیندار کو قرض دے کرمخصوص کمیشن پر مال فروخت کرنے کا حکم
83210خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

زید نے عمیر (جو کہ فروٹ کمیشن ایجنٹ ہے) کو دس لاکھ روپے کاروبار کے لیے دیے اور ان کے درمیان یہ طے ہوا کہ  عمیر یہ رقم کسی زمیندار کو دے گا اور زمیندار اس رقم سے خرچہ کرکے  فروٹ کی کاشت کرے گا اور  تیار ہونے  پر منڈی میں عمیر کے پاس کمیشن پر فروخت کروائے گا، عمیر اس مال کو بیچنے کے لیے دس فیصد کمیشن لے گا ۔ زید (جس نے ابتداء میں رقم دی ہے) اور عمیر کے درمیان یہ طے ہوا  ہے کہ اگر زمیندار کی فصل اچھی ہوئی (یعنی اچھے ریٹ پر بِک گیا) تو عمیر دس فیصد کمیشن لے گا اور اس میں سے چار فیصد زید کو ملے گا، اور اگر فصل خراب ہوئی یا مال اچھے ریٹ پر نہیں بِک سکا، تو زید  کو سال کے آخر میں اپنے دس لاکھ روپے نقد مل جائیں گے ۔ کیا شریعت میں یہ معاملہ جائز ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہاں دو معاملے الگ الگ ہیں ۔ ایک معاملہ زید اور عمیر کے درمیان طے ہوا ہے ، دوسرا عمیر اور زمیندار کے درمیان  طے ہوگا ۔ 

۱۔      پہلا معاملہ کہ جس میں زید عمیر کو ایک بڑی  رقم دے کر یہ شرط لگاتا ہے کہ آپ یہ رقم اپنے کسی زمیندار کو دیں گے جس سے وہ فروٹ کی کاشت کرے گا اور مال تیار ہونے پر آپ کے پاس  منڈی میں فروخت کروانے کے لیے لائے گا ، جس کی فروختگی پر آپ مخصوص کمیشن وصول کریں گے ،  اور اس میں سے چار فیصدمیرا (زید) ہوگا ۔ یہ شرط  سرے سے جائز ہی نہیں ، اس لیے کہ کسی کو قرض دے  کراس پر کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا سود کے حکم میں آتا ہے ،اور ایسی شرط باطل ہے  ۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر زید ( جو اپنا سرمایہ لگاکر نفع حاصل کرنا چاہتا ہے ) عمیر کے ساتھ عقد مضاربت کرے اس طور پر کہ وہ  یہ ساری رقم عمیر کے ہاتھ میں دے دے اور اس سے یہ طے کرے کہ وہ اس رقم  سے زمینداروں کے ساتھ بیع سلم کرے( بیع سلم میں فروخت کی جانے والی چیز کی قیمت نقد ادا کی جاتی ہے  اور چیز بیچنے والے کے ذمہ میں ادھار ہوتی ہے)  اور بیع سلم کی صورت میں جب مال تیار ہوکرعمیر کے پاس  پہنچ جائے تو اسے منڈی میں بیچ کر    جوحقیقی نفع حاصل ہوگا، وہ فریقین کے  درمیان عقد مضاربت میں طے شدہ تناسب سے تقسیم ہوگا ، مثلا سرمایہ لگانے والے فریق کے لیے نفع ساٹھ فیصد اور کام کرنے والے کے لیے چالیس فیصد ہوگا،    تو ایسی صورت میں یہ عقد درست اور جائز ہوگا ۔

 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 166):

وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

الفتاوى الهندية (22/ 394):

قال محمد رحمه الله تعالى في كتاب الصرف إن أبا حنيفة رحمه الله تعالى كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به وكذلك إذا أقرض رجلا دراهم أو دنانير ليشتري المستقرض من المقرض متاعا بثمن غال فهو مكروه ، وإن لم يكن شراء المتاع مشروطا في القرض ولكن المستقرض اشترى من المقرض بعد القرض بثمن غال فعلى قول الكرخي لا بأس به وذكر الخصاف في كتابه وقال ما أحب له ذلك .

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 52،53):

(هي شركة بمال من جانب وعمل من جانب) يعني: المضاربة عقد شركة بمال من أحد الشريكين وعمل من الآخر هذا في الشرع والمراد بالشركة الشركة في الربح حتى لو شرطا فيها الربح لأحدهما لا تكون مضاربة على ما نبين ...

وركنها أن يقول دفعت هذا المال إليك مضاربة، أو معاملة، أو خذ هذا المال واعمل به على أن ما رزق الله تعالى ۔

مجلة الأحكام العدلية (ص: 271)

المادة (1407) المضاربة المطلقة هي التي لم تتقيد بزمان أو مكان أو بنوع تجارة أو بتعيين بائع أو مشتر , وإذا تقيدت بأحد هذه فتكون مضاربة مقيدة. مثلا إذا قال: اعمل في الوقت الفلاني أو المكان الفلاني أو بع واشتر مالا من الجنس الفلاني أو عامل فلانا وفلانا أو أهالي البلدة الفلانية. تكون المضاربة مقيدة.

۲۔      دوسرا معاملہ کہ جس میں عمیر (جو کمیشن ایجنٹ ہے) اپنے کسی زمیندار کو یہ رقم دیتا ہے اور اس کے ساتھ یہ طے کرتا ہے کہ فصل تیار ہونے پر حاصل شدہ مال منڈی میں میرے پاس لے آؤگے اور میں آپ کا مال بیچ کر اس سے اپنا دس فیصد کمیشن وصول کروں گا،   آڑھتی کا ایسی شرط لگاجائز نہیں، اور اس کی پابندی زمیندار پر لازم بھی نہیں ،   بلکہ جب مال تیار ہوجائے تو وہ اپنی مرضی سے (چاہے تو) اسی آڑھتی کے ذریعہ مارکیٹ ویلیو( منڈی میں رائج کمیشن ریٹ )  پر فروخت کرواتا رہے( چاہے تو کسی اور سے فروخت کروائے)اور آڑھتی بھی قرض کی وجہ سے زیادہ کمیشن لینے کا مطالبہ نہ کرے  ، تو ایسی صورت میں ان دونوں کے درمیان قرض کی لین دین درست اور جائز ہوجائے گی ۔

 لیکن اگر آڑھتی زمیندار کا  مال منڈی میں رائج کمیشن سے زیادہ ریٹ  پر فروخت کرائے ، تو ایسی صورت میں یہ معاملہ سود تو نہیں ہوگا ، البتہ چونکہ ان دونوں کے درمیان  قرض کا معاملہ بھی ہوچکا ہے ، لہذا قرض کے ساتھ آڑھتی کا اس طریقہ سے مال  فروخت کرنا درست نہیں، اس سے بہرصورت پرہیز کرنا ضروری ہے ۔

مذکورہ  مسئلے کا جو ناجائز پہلو ہے ، اس کی  جائز متبادل صورت یہ بن سکتی ہے کہ آڑھتی اپنے متعلقہ زمینداروں کو یہ رقم قرض کے بجائے بیع سلم (چیز کی قیمت نقد اور چیز کی وصولی ادھار)  کے طور پر دے دیں ، اور جب وہ مال تیار کرکے لائیں تو اپنے خرید کردہ مال  کے  طور پر اسے وصول کرے، پھر اسے فروخت کرکے نفع کمائیں ۔ ایسی صورت میں زمیندار کی ضرورت بھی پوری ہوجاتی ہے کہ جسے کاشت کاری کے لیے بڑی رقم لگانی پڑتی ہے اور آڑھتی کی بھی ضرورت پوری ہوجاتی ہے کہ وہ اس مال کو  منڈی میں اچھے دام میں فروخت کرکے نفع کما سکتا ہے ۔

بیع سلم کرتے وقت اس کی تمام  شرائط کی پابندی ضروری ہے، کسی ایک شرط کی خلاف ورزی کی صورت میں معاملہ فاسد ہوجاتا ہے، بیع سلم کی شرائط درج ذیل ہیں    :

۱۔       بیچی جانے والی  چیز ان اشیاء میں سے ہو جن میں بیعِ سلم ہو سکتی ہو، مثلا  گندم ، چاول، فروٹ جیسی اشیاء  میں بیع سلم ہو سکتی ہے۔

۲۔      بیچی جانے والی  چیز  کی جنس معلوم ہو، مثلا مذکورہ بالا مسئلہ میں فروٹ  ایک معلوم جنس ہے۔

۳۔      بیچی جانے والی  چیز (مثلا مذکورہ  مسئلہ  میں فروٹ ) کی نوع (قسم) اور صفت (کوالٹی) اس قدر وضاحت کے ساتھ بیان کردی جائے کہ بعد میں اس کے بارے میں فریقین (خریدار  اور فروخت کنندہ) کےدرمیان کسی قسم کے جھگڑے  کا امکان باقی  نہ رہے۔

۴۔      بیچی جانے والی  چیز کی مقدار واضح طور پر متعین ہو، مثلا زمیندار فروٹ کے کتنے کریٹ حوالہ کرےگا ۔

۵۔      چیز کی پوری قیمت پر خرید و فروخت کی مجلس میں قبضہ ہو۔

۶۔      چیز کی حوالگی کا وقت اور جگہ دونوں معلوم ہوں ، مثلا دو ماہ بعد جب فروٹ پک کر تیار ہوجائے تو منڈی ہی میں لاکر آڑھتی (خریدار) کے حوالہ کردے۔

۷۔     بیچی جانے والی چیز عقد کے وقت سے لے کر  حوالگی کی تاریخ  تک مارکیٹ میں دستیاب ہو ، اس دوران وہ چیز ختم نہ ہو۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 165):
(و) فيها (القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد منها لا يبطله ولكنه يلغو شرط رد شيء آخر فلو استقرض الدراهم المكسورة على أن يؤدي صحيحا كان باطلا) وكذا لو أقرضه طعاما بشرط رده في مكان آخر (وكان عليه مثل ما قبض) فإن قضاه أجود بلا شرط جاز ويجبر الدائن على قبول الأجود وقيل لا، بحر۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63):
مطلب أسكن المقرض في داره يجب أجر المثل. وفي الخانية: رجل استقرض دراهم وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضا عن منفعة القرض لا مجانا.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63):
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.
المنفعۃ فی القرض ( ,224لدکتور عبداللہ بن محمد العمرانی، طبع دار کنوز اشبیلیا السعودیۃ):
مر بنا اتفاق العلماء على تحريم اشتراط زيادة في بدل القرض للمقرض ....إلا أن العلماء اختلفوا في عقد القرض هل يؤثر عليه هذا الشرط الفاسد فيفسده أو أن الشرط المنفعة في القرض الفاسد يلغو ويصح العقد، على قولين:
القول الأول: إن الشرط الفاسد وهو اشتراط المنفعة في القرض للمقرض يلغو، وأما عقد القرض فيبقى صحيحاً. و ھذا مذھب الحنفیۃ۔
المنفعۃ فی القرض ( (227, 228:
عن عائشة قالت: جاءتني بريرة فقالت: كاتبت أهلي على تسع أواق في كل عام وقية، فأعينيني فقلت إن أحب أهلك أن أعدها لهم ويكون ولاؤك لي...... فقالت: إني قد عرضت ذلك عليهم فأبوا إلا أن یکون لھم الولاء۔ فسمع النبی فأخبرت عائشۃ النبیﷺ   فقال:((خذیھا واشترطی لھم الولاء، فان الولاء  لمن أعتق ))۔
وجه الدلالۃ: أن النبی أبطل الشرط الفاسد و لم یبطل العقد حیث حکم بصحۃ العقد و امضائه مع وجود الشرط الفاسد، مما یدل علی عدم التأثیر الشرط الفاسد فی صحۃ العقد ۔
اللباب في شرح الكتاب(1 / 130):
السلم جائز في المكيلات والموزونات والمعدودات التي لا تتفاوت كالجوز والبيض وفي المذروعات......ولا يصح السلم عند أبي حنيفة إلا بسبع شرائط تذكر في العقد: جنسٍ معلومٍ، ونوعٍ معلومٍ، وصفةٍ معلومةٍ، ومقدارٍ معلومٍ، وأجلٍ معلومٍ، ومعرفة مقدار رأس المال إذا كان مما يتعلق العقد على قدره، كالمكيل والموزون والمعدود، وتسمية المكان الذي يوافيه فيه إذا كان له حملٌ ومؤنةٌ. وقال أبو يوسف ومحمدٌ: لا يحتاج إلى تسمية رأس المال إذا كان معيناً ولا إلى مكان التسليم، ويسلمه في موضع العقد۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63):
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.

صفی اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

07/شعبان المعظم/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی اللہ بن رحمت اللہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے