021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چھوٹے بچے کےاخراجات برداشت نہ کر نے کی صور ت میں کیا عور ت پر حج فرض ہے؟
83195حج کے احکام ومسائلکن لوگوں پر حج فرض ہے؟

سوال

میں ایک ایسی شادی شدہ خاتون ہوں جو مکمل طور پر اپنے شوہر پر منحصر ہے،لیکن میرے پاس سونا ہے جو حج کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کافی ہے۔ میرا ایک 2 سال کا بچہ ہے جس کو میں پیچھے نہیں چھوڑ سکتی اور اسے اپنے ساتھ حج پر لے جانا ہے۔ اس کے اخراجات ایک بالغ کے اخراجات کے برابر ہیں، میں اس کے اخراجات پورے نہیں کر سکتی۔ کیا مجھ پر حج فرض ہوگا؟ اور اگر ہاں تو کیا اپنے شوہر سے اپنے بچے کے اخراجات کا مطالبہ کر سکتی ہوں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سونا  اتنا ہےجو کہ حج   کے اخراجات کےلیے کافی ہے اور شوہر یا  قابل اعتمادمحرم بھی ساتھ ہو  جو اپنا خرچہ  خود برداشت کرے یا آپ برداشت کرسکیں  تو آپ پر حج فرض ہے، ورنہ   حج کوآخر عمر تک  موخر کردیں۔ اگر آخر عمر تک شوہریا محرم  کے ساتھ جانے کی صورت نہ بن سکے  تو آپ پر لازم ہےکہ  اپنے مال سے حج بدل  کرانے کی وصیت کریں ۔ مزید یہ کہ اگر بچہ آپ کےبغیر اکیلانہیں رہ سکتا اوروالد اپنی رضامندی سے اس کے اخراجات برداشت کرنے کےلیے تیا ر نہیں  تو ایک دوسال کےلیےحج  کو موخر کردیں، والد سے اس کے سفری اخراجات کےمطالبہ کاحق حاصل  نہیں۔

واضح رہے کہ علماء احناف کےنزدیک عورت کا محرم کےبغیر  حج کے لیے جانا جائز نہیں اور محرم کے نہ ہونے یا اس کےاخراجات کا بندوبست نہ ہونے  کی صورت میں حج کو آخر عمر تک موخر کیاجائے گا  ۔ البتہ  ایسی صورت میں دارالافتاء جامعہ الرشید کے مفتیان کرام اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ اگر  عور ت بوڑھی ہواور بااعتماد خواتین کے گرو پ کےساتھ جانے کی سہولت  میسر ہو تو ان کےساتھ جانے کی گنجائش ہے جیساکہ  امام مالکؒ اور امام شافعی ؒ کا مسلک ہے،البتہ ایسی خاتون کے لیے بھی زیادہ پسندیدہ یہ ہے کہ حجِ بدل کروائے یا اس کی وصیت کرے۔

حوالہ جات
صحيح مسلم (2/ 977):
عن أبي سعيد الخدري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر سفرا يكون ثلاثة أيام فصاعدا إلا ومعها أبوها أو ابنها أو زوجها أو أخوها أو ذو محرم منها.
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 132):
" الحج واجب على الأحرار البالغين العقلاء الأصحاء إذا قدروا على الزاد والراحلة فاضلا عن المسكن وما لا بد منه وعن نفقة عياله إلى حين عوده وكان الطريق آمنا "۔
المبسوط للسرخسي((4/ 197):
المرأة لا يجوز لها أن تخرج لسفر الحج إلا مع محرم أو زوج عندنا. وقال الشافعي رحمه الله تعالى: إذا وجدت رفقة نساء ثقات فلها أن تخرج وإن لم تجد محرما، واحتج في ذلك بأن النبي صلى الله عليه وسلم فسر الاستطاعة بالزاد والراحلة، فاشتراط المحرم يكون زيادة على النص، ومثل هذه الزيادة تعدل عندكم النسخ، ثم هذا سفر لإقامة الفرض، فلا يشترط فيه المحرم كسفر الهجرة؛ فإن التي أسلمت في دار الحرب لها أن تهاجر إلى دار الإسلام بغير محرم، وهذا لأن شرائط إقامة الفرض ما يكون في وسع المرء عادة، ولا ولاية لها على المحرم في إحرامه، ولا يجب على المحرم الخروج معها، وليس عليها أن تتزوج لأجل هذا الخروج بالاتفاق، فعرفنا أن المحرم ليس بشرط، إلا أن عليها أن تتحرز عن الفتنة، وفي اختلاطها بالرجال فتنة، وهي تستوحش بالوحدة، فتخرج مع رفقة نسوة ثقات لتسأنس بهن، ولا تحتاج إلى مخالطة الرجال.
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 133):
قال: " ويعتبر في المرأة أن يكون لها محرم تحج به أو زوج ولا يجوز لها أن تحج بغيرهما إذا كان بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام... ونفقة المحرم عليها لأنها تتوسل به إلى أداء الحج۔
بحوث في قضایا فقهیة معاصرة (1/338-337)
أخرج مسلم عن أبي سعید الخدري رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: "لاتسافر المرأة فوق ثلاث إلا ومعها زوجها أو ذو رحم محرم منها".هذا الحکم الصریح قد أخذ به جمهور الفقهاء، حتی إنهم لم یجوزوا لها أن تسافر بدون محرم لضرورة الحج. وإن الدراسة والعمل في البلاد الأجنبیة لیس من ضرورة النساء المسلمات في شیئ؛ فإن الشریعة لم تأذن للمرأة بالخروج من دارها إلا لحاجة ملحة، وقد ألزمت أباها أو زوجها بأن یکفل لها جمیع حاجاتها المالیة، فلیس لها أن تسافر بغیر محرم لمثل هذه الحوائج.أما إذا کانت المرأة لیس لها زوج، أو أب، أوغیرهما من أقاربها الذین یکفلون لها بالمعیشة، ولیس عندها من المال ما یسد حاجتها، فحینئذٍ یجوز لها أن تخرج للاکتساب بقدر الضرورة ملتزمة بأحکام الحجاب، فیکفي لها في مثل هذه الحال أن تکتسب في وطنها، ولا حاجة لها إلی السفر إلی البلاد الأجنبیة، ولو لم تجد بدا من السفر في وطنها من بلد إلی آخر، ولم تجد أحدا من محارمها، ففي مثل هذه الحالة فقط یسع لها أن تأخذ بمذهب مالك والشافعي، حیث جوزوا لها السفر مع النساء المسلمات الثقات.

نعمت اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

08/شعبان/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نعمت اللہ بن نورزمان

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے