021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایلاء کے متفرق مسائل
83203طلاق کے احکامبیوی کے پاس نہ جانےکی قسم کھانے کے مسائل

سوال

1 ) اگر کوئی اپنی بیگم کو قسم کھا کر کہے کہ میں تمھارے قریب کبھی نہیں آؤ ں گااور اس بات کو 4 مہینے سے زیادہ گزر گئے ہوں تو کیا وہ عورت اب بھی  نکاح میں ہے  ؟

2 ) اگر اس نے یہ قسم عورت کے سامنے کھائی ہے ،لیکن عورت بولی کہ مجھے  پتہ  نہیں تھا کہ ایسے طلاق ہوجاتی ہے تو کیا عورت کے نہ ماننے سے طلاق  واقع نہیں ہوگی ؟

3 ) ایلاء میں طلاق  کا لفظ کہنا ضروری ہوتا ہے یا نہیں ؟

4 ) اگر یہ طلاق ہوگئی ہے تو ایلاء کے بعد اگر وہ اپنی سابقہ بیوی کی بھانجی سے نکاح کر لے تو وہ نکاح جائز ہے یا نہیں ؟

5 ) طلاق بائن کا مطلب یہی ہوتا ہے کے بیوی نکاح سے فوراً نکل جاتی ہے ؟

تنقیح : سائل  نے زبانی بتایا کہ اس عرصےمیں ہم ایک ساتھ رہ رہے تھے لیکن  ہمبستری نہیں کی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوالا ت کےجوابات ترتیب وار درج ذیل ہیں:

۱: صورت مسؤلہ میں جب قسم کےبعد بغیر ہمبستری  کےچار مہینے گزر گئے ہیں تو  ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے،لہذا اب تجدید نکا ح کے بغیر بیوی حلال نہیں۔تجدید نکا ح کےبعد چار مہینے کے اند ر اگر بیوی سے ہمبستری کرلی تو چار مہینے گزرنے پر دوسری طلاق واقع نہیں ہوگی، البتہ قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔ قسم کا کفارہ یہ ہےکہ دس مسکینو ں کو دو وقت کا متوسط کھانا کھلائیں  یا اس کی قیمت ان کو دے دیں یا ان کو متوسط اور مکمل لباس دلوائیں اور اگر اس کی استطاعت  نہ ہوتو تین دن مسلسل روزے رکھیں۔

۲: ایلاء میں چار مہینےتک ہمبستری نہ کرنے کی صورت میں چار مہینے بعد طلاق واقع ہوجاتی ہے،چاہے  بیوی کو اس کا علم ہو کہ اس سے طلاق واقع ہوتی ہے یا علم نہ ہو۔

۳: کو ئی بھی ایسا لفظ جو حق زوجیت کی ادائیگی  سے انکار پر دلالت کرے اس سے ایلاء متحقق ہوتا ہے ، لفظ طلاق کا کہنا لازمی نہیں۔

۴: طلاق کےوقت (چار مہینے کے بعد )سے تین ماہواریا ں  گزرنے کےبعدبیوی کی بھانجی سے نکا ح جائز ہے ،  اس سے پہلےدوران عدت جائز نہیں۔

۵:طلاق بائن  کا مطلب یہ ہوتا ہےکہ  بیوی طلاق کےوقت ہی نکاح سے نکل جاتی ہےاور تجدید نکاح کے بغیر بیوی حلال نہیں ہے،لیکن جب تک وہ عدت میں ہودوسری ایسی عورت سے نکاح جائز نہیں ہوتا جو اس کی محرم  ہو جیسے بیوی کی بہن یا بھانجی وغیرہ۔

حوالہ جات
القرآن الکریم [البقرة: 226 - 228]:
{لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (226) وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (227) }
القرآن الکریم (المائدہ  89:   ) :
{لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (89)}
صحيح مسلم (2/ 1029)
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تنكح المرأة على عمتها، ولا على خالتها».
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 161)
وأما ركنه فهو اللفظ الدال على منع النفس عن الجماع في الفرج مؤكدا باليمين بالله تعالى أو بصفاته أو باليمين بالشرط والجزاء حتى لو امتنع من جماعها أو هجرها سنة أو أكثر من ذلك لم يكن موليا ما لم يأت بلفظ يدل عليه...أما الألفاظ الدالة على منع النفس عن الجماع فأنواع بعضها صريح، وبعضها يجري مجرى الصريح، وبعضها كناية أما الصريح فلفظ المجامعة بأن يحلف أن لا يجامعها.وأما الذي يجري مجرى الصريح فلفظ القربان والوطء والمباضعة والافتضاض في البكر؛ بأن يحلف أن لا يقربها أو لا يطأها أو لا يباضعها أو لا يفتضها، وهي بكر.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 179)
فإن كان الإيلاء مطلقا أو مؤبدا بأن قال: والله لا أقربك أبدا أو قال: والله لا أقربك، ولم يذكر الوقت فمضت أربعة أشهر من غير فيء حتى بانت بتطليقة لا يبطل الإيلاء حتى لو تزوجها فمضت أربعة أشهر أخرى منذ تزوج يقع عليها تطليقة أخرى۔
تحفة الفقهاء (2/ 207)
ثم الفيء على ضربين أحدهما هو الأصل وهو الفيء بالوطء مع القدرةوالآخر بدل عن الأول وهو الفيء بالقول عند العجز عن الوطء۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 726)
ولو غدى مسكينا وأعطاه قيمة العشاء أجزأه، وكذا إذا فعله في عشرة مساكين۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 38)
(و) حرم (الجمع) بين المحارم (نكاحا) أي عقدا صحيحا (وعدة ولو من طلاق بائن) ۔

نعمت اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

09/شعبان/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نعمت اللہ بن نورزمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے