021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رضاعی بہن کے ساتھ نکاح کا حکم
83199طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

تقریباً نو دس مہینے پہلے ایک لڑکی نے عدالت میں کورٹ میرج کی، جس کی عمر سترہ سال ہے، جس کے بعد لڑکی کے والدین نے یہ دعویٰ کیا کہ اس لڑکے نے اس لڑکی کی والدہ کا دودھ پیا ہے، لہذا یہ دونوں رضاعی بہن بھائی ہیں،لڑکے کے والدین نے کہا کہ اس نےدودھ نہیں  پیا، لڑکی کے والدین قرآن پر ہاتھ رکھ گواہی دے رہے ہیں کہ اس نےدودھ  پیا ہے، اس کے بعد ایک مدرسہ میں علماء کی پنچائت میں یہ مسئلہ رکھا گیا،جس میں انہوں نے فیصلہ کیاکہ یہ نکاح نہیں ہو سکتااور لڑکے والوں کو بولا کہ لڑکی  واپس کر دو تو انہوں نے لڑکی واپس کر کے عدالت میں صلح کردی، جس کے بعد لڑکے والوں نے فیملی کورٹ میں نکاح کا دعوی کردیا، اب سات آٹھ ماہ  ہو گئے ہیں، لڑکی اس لڑکے کے ساتھ بالکل بھی نہیں جانا چاہتی،سوال یہ ہے کہ اس صورت میں یہ نکاح ہوا ہے یانہیں؟ مہربانی فرما کر وضاحت کردیں۔ ان دونوں خاندانوں میں کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔

کیا اب یہ لڑکی دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے؟ جبکہ لڑکے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا نکاح ہے اور لڑکا طلاق بھی نہیں دے رہا، ایسی صورت میں دوسری جگہ نکاح کرنے کے لیے لڑکی کو طلاق کی ضرورت ہے یا نہیں؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ لڑکے کے لڑکی کی والدہ کا دودھ پینے پر چار گواہ موجود ہیں، جن میں سے دو مرد اور دو عورتیں ہیں، جن میں لڑکی کی والدہ، والد، چچا اور چچی شامل ہیں، نیز لڑکی نے بغیر ولی کے ازخود نکاح کیا تھا۔ اسی لیے مانسہرہ مدرسہ کے شیخ الحدیث شاہ عبد القادر صاحب سمیت علمائے کرام نے اس نکاح کے فاسد ہونے کا فیصلہ جاری کیا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق لڑکے کے لڑکی کی والدہ کا دودھ پینے پر اگرچہ چار گواہ موجود ہیں، مگر ان میں دو گواہ لڑکی کے والدین ہیں، جبکہ اصولِ قضاء کے مطابق والدین کی گواہی اپنی  اولاد کے حق میں قبول نہیں، باقی چچا اور ایک چچی کی گواہی اگرچہ معتبر ہے، مگر یہ نصابِ شہادت مکمل نہیں، اس لیے شرعی اعتبار سے حنفیہ کے نزدیک اس گواہی کی بنیاد پر نکاح کو فاسد قرار نہیں دیا جا سکتا، باقی ان کے حلفیہ بیان کا اس مسئلہ میں کوئی دخل نہیں ہے۔

البتہ مذکورہ گواہی کی بناء پرچونکہ غالب گمان ہے کہ لڑکے نے لڑکی کی والدہ کا دودھ پیا ہے اس لیے اگر لڑکا طلاق دینے پر آمادہ نہیں تو ایسی صورت میں اس کا حل یہ ہے کہ عدالت سے درج ذیل دو وجوہ میں سے کسی بھی وجہ کی بنیاد پر فسخِ نکاح کی ڈگری لے لی جائے تو فریقین کے درمیان نکاح ختم ہو جائے گا:

پہلی وجہ:        لڑکی نے چونکہ ولی کی اجازت کے بغیر عدالت میں جا کر نکاح کیا ہے، اس لیے یہ نکاح مذاہبِ ثلاثہ یعنی شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک باطل اور کالعدم ہے، لہذا اگر عدالت بغیر ولی کے نکاح کرنے کی بنیاد پر اس نکاح کو فسخ کر دے تو ائمہ ثلاثہ کے مسلک پر عمل کرتے ہوئے یہ فیصلہ درست ہو گا۔

دوسری وجہ: مذکورہ گواہ عدالت میں پیش ہوں اور اپنا حلفیہ بیان دیں کہ لڑکے نے لڑکی کی والدہ کا دودھ پیا ہے، اس گواہی کی بنیاد پر اگر عدالت فسخِ نکاح کا فیصلہ کر دے تو حضرات ِ مالکیہ کے مسلک کے مطابق نکاح ختم ہو جائے گا، کیونکہ حضرات ِ مالکیہ کے نزدیک ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی سے بھی رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔

مذکورہ بالا وجوہ میں سے کسی بھی وجہ کی بنیا پر عدالت کا فیصلہ درست ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں یہ بات مذکور ہے کہ قاضی مسلّمہ فقہائے کرام میں سے کسی بھی معتبر فقیہ کے مذہب کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے، اس لیے عدالت کی طرف سے مذاہب اربعہ میں سے کسی بھی مذہب کے مطابق کیا گیا فیصلہ نافذ اور واجب العمل ہو گا اور فیصلہ جاری ہونے کی تاریخ سے عورت عدت گزار کر شرعاً دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

حوالہ جات
العناية،کتاب الرضاع، 5/158 ط : دار الفکر لبنان:
و لاتقبل في الرضاع شهادة النساء منفردات وإنما تثبت بشهادة رجلين أو رجل وامرأتين) و قال مالك رحمه الله : تثبت بشهادة امرأة واحدة إذا كانت موصوفةً بالعدالة؛ لأن الحرمة حق من حقوق الشرع؛ فتثبت بخبر الواحد، كمن اشترى لحمًا فأخبره واحد أنه ذبيحة المجوسي. ولنا أن ثبوت الحرمة لايقبل الفصل عن زوال الملك في باب النكاح وإبطال الملك لايثبت إلا بشهادة رجلين أو رجل وامرأتين، بخلاف اللحم؛ لأن حرمة التناول تنفك عن زوال الملك فاعتبر أمرًا دينيًّا.
المبسوط للسرخسي (5/ 137) باب الرضاع، ط: دار المعرفة، بیروت:
" (قال:) ولايجوز شهادة امرأة واحدة على الرضاع أجنبيةً كانت أو أم أحد الزوجين، ولايفرق بينهما بقولها، ويسعه المقام معها حتى يشهد على ذلك رجلان أو رجل وامرأتان عدول، وهذا عندنا".
الشرح الكبير للشيخ الدردير وحاشية الدسوقي (2/ 507) دار الفكر للطباعة – بيروت:
(ويثبت) الرضاع (برجل وامرأة) أي مع امرأة (وبامرأتين) إن فشا ذلك منهما في الصورتين (قبل العقد) لا إن لم يفش ذلك منهما فلا يثبت وشمل كلامه الأب والأم في البالغين، والأم مع امرأة أخرى في البالغين كما مر (وهل تشترط العدالة) أي عدالة الرجل والمرأة، وعدالة المرأتين (مع الفشو) أو لا تشترط إلا مع عدمه، وأما معه فلا لقيام الفشو مقامها (تردد) والراجح لا تشترط (و) يثبت (برجلين) عدلين اتفاقا فشا أو لا.
حاشية العدوي على كفاية الطالب الرباني (2/ 117) دار الفكر – بيروت:
يثبت الرضاع برجلين عدلين فشا أم لا، وكذا برجل وامرأة، وبامرأتين إن فشا في هاتين قبل العقد كانتا أجنبيتين أو أمهاتهما، وهل تشترط العدالة مع الفشو أو لا تشترط إلا مع عدم الفشو تردد لا بامرأة، ولو فشا، ولو عدلا.
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (10/ 7293) دار الفكر - سوريَّة – دمشق:
واختلفوا في ثبوت الرضاع بشهادة رجل واحد، أو امرأة واحدة، أو أربع من النساء.
فقال الحنفية: لا تقبل هذه الشهادات، لما روي عن عمر رضي الله عنه أنه قال: «لا يقبل على الرضاع أقل من شاهدين» وكان قوله بمحضر من الصحابة، ولم ينكر أحد، فكان هذا إجماعاً، ولأن الرضاع مما يطلع عليه الرجال، فلا يقبل فيه شهادة النساء على الانفراد، كالشهادة في الدخول.
وقال المالكية: لا يثبت الرضاع قبل العقد بشهادة امرأة فقط ولو فشا منها أومن غيرها الرضاع، إلا أم الصغير، فتقبل شهادتها، مع الفشو، ولا يصح العقد معه.
ويثبت الرضاع بشهادة رجل وامرأة أو بشهادة امرأتين إن فشا الرضاع منهما أو من غيرهما بين الناس، قبل العقد. ولا تشترط مع الفشو عدالة على الأرجح. وإنما اشترط لقبول هذه الشهادة: الإظهار قبل الزواج، لإبعاد التهمة عن الشاهد بهذه الشهادة.
الحاوي الكبير للماوردي (9/ 38) دار الكتب العلمية، بيروت:
أن الولي شرط في نكاحها لا يصح العقد إلا به وليس لها أن تنفرد بالعقد على نفسها، وإن أذن لها وليها سواء كانت صغيرة أو كبيرة، شريفة أو دنية، بكرا أو ثيبا. وبه قال من
الصحابة عمر، وعلي، وابن عباس، وابن عمر، وعائشة - رضي الله عنهم. ومن التابعين: الحسن، وابن المسيب، وعمر بن عبد العزيز، وشريح، والنخعي، ومن الفقهاء: الأوزاعي، والثوري، ابن أبي ليلى، وأحمد، وإسحاق.
المغني لابن قدامة (7/ 6) مكتبة القاهرة:
 [فصل:  النكاح لا يصح إلا بولي]
مسألة: قال: ولا نكاح إلا بولي وشاهدين من المسلمين في هذه المسألة أربعة فصول:
أحدها: أن النكاح لا يصح إلا بولي، ولا تملك المرأة تزويج نفسها ولا غيرها، ولا توكيل غير وليها في تزويجها. فإن فعلت، لم يصح النكاح. روي هذا عن عمر، وعلي، وابن مسعود، وابن عباس، وأبي هريرة، وعائشة - رضي الله عنهم -. وإليه ذهب سعيد بن المسيب، والحسن، وعمر بن عبد العزيز، وجابر بن زيد، والثوري، وابن أبي ليلى وابن شبرمة، وابن المبارك.
البيان والتحصيل (10/ 105) أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد القرطبي (المتوفى: 520هـ) دار الغرب الإسلامي، بيروت:
قال محمد بن رشد: أما الولي فهو شرط في صحة العقد، وأما الإشهاد فليس بشرط في صحته ولكنه لا يتم عند المناكرة إلا به، فقول عمر بن الخطاب: "لا نكاح إلا بولي وشهيدي عدل" معناه لا نكاح يتم عند المناكرة إلا أن يكون بولي ويشهد عليه شاهدان.
بداية المجتهد ونهاية المقتصد (3/ 36) دار الحديث، القاهرة:      
اختلف العلماء هل الولاية شرط من شروط صحة النكاح؟ أم ليست بشرط؟ فذهب مالك إلى أنه لا يكون النكاح إلا بولي، وأنها شرط في الصحة في رواية أشهب عنه، وبه قال الشافعي. وقال أبو حنيفة، وزفر، والشعبي، والزهري: إذا عقدت المرأة نكاحها بغير ولي، وكان كفؤا - جاز.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

10/شعبان المعظم 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے