021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر حافظ اور غیر قاری امام کےپیچھے نماز پڑھنے کا حکم
83325متفرق مسائلمتفرق مسائل

سوال

صورت مسئلہ یہ ہے کہ بندہ مسجد میں  نائب امام اور خادم ہے ۔اسی مسجد میں بندہ کے والد صاحب بھی مؤذن ہیں۔مسجد کے متولی نے بندہ کے والد صاحب کو کہا کہ وہ صرف اذان دیا کریں ،اس کے علاوہ مسجد کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں۔متولی کے کہنے کے باوجود وہ مسجد کے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں اور  جب کبھی  مسجد کا مستقل امام نہ ہو تو میرے والد صاحب کہتے ہیں کہ میں نماز پڑھاؤں گا،حالانکہ وہ قاری ہے، نہ ہی  حافظ اور ان کاتلفظ بھی صحیح نہیں ہے۔نماز پڑھانے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے  کہ جب وہ اذان دیتے ہیں تو لوگ سن کر تھوڑی سی تعریف کرتے ہیں، تو وہ کہتے میں نماز پڑھاؤں گا، لوگ میری تلاوت سن کے واہ واہ کریں ،وہ خود نماز پڑھانے سے پہلے یہی بولتے ہیں اور یہ بھی بولتے ہیں کہ میں نماز پڑھاؤں شاید کوئی میری آواز سن کر کچھ پیسے دے دے۔کیا اس نیت سے ان کا نماز پڑھانا  ٹھیک ہوگا یا نہیں ؟نماز پڑھانےپر  کیا  مقتدیوں کی نماز بھی ہوجائے گی؟

دوسری صورت یہ ہے کہ میرے والد صاحب گھر میں  غلیظ ترین گالیاں دیتے ہیں ،ان سے گھر میں کوئی بھی ایسی ویسی بات ہو جائے  تو وہ گندی گندی گالیاں دیتے ہیں ،ایسی صورت میں میں مجبور ہو کر والد کے سامنے آکرجواب دیتا ہوں ، ان کی اس حرکت کی وجہ سے میں ان کے شر کے ڈر سے بات کرنا ہی چھوڑ دیتا ہوں۔میرا اس طرح کرنا ٹھیک ہے یا نہیں ؟میں خود قاری ہوں اور نماز بھی پڑھاتا ہوں تو کیا اس صورت میں میرا نماز پڑھانا ٹھیک ہوگا یا نہیں؟ نماز پڑھانےکی صورت میں مقتدیوں کی نماز بھی ہوجائے گی یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 اگرکسی آدمی کو امامت کےبنیاد ی مسائل  مثلا نماز کےفرائض  و واجبات اور سجدہ سہو وغیر ہ کے مسائل کا علم ہو،تلاوت میں فحش غلطیاں (لحن جلی)نہ کرتا ہواور اہل محلہ اس کےپیچھے نماز پڑھنےپر راضی ہوں تو اس کا نماز پڑھانا جائز ہےاور مقتدیوں کی نماز اداہوجائےگی ۔صورت مسؤلہ میں اگر آپ کے والد صاحب  کا تلفظ ٹھیک نہیں ہے اور وہ تلاوت کرتے ہوئے فحش غلطیاں کرتے ہیں جس کی دودین دار  اورماہر قاری حضرات گواہی دے دیں، یا ان کو امامت کےبنیادی مسائل کا علم نہیں ہے، یا مسجد کی کمیٹی ممبران  نےکسی شرعی عذرکی بناءپر  ان کو امامت سے منع کیا     ہےتو ان کا نماز پڑھانا جائز نہیں  ، بصورت دیگر حافظ اورقاری  نہ ہونے  اورریاکاری کےباوجود  اس کےپیچھے نماز ادا ہوجائے گی ۔ریاکاری اورمال کے لالچ کا گناہ  ان کوہوگا لیکن ان کی  اس نیت کا نماز کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔

آپ کےوالد صاحب  کا بات بات پر غصہ ہونا اور گالیاں دینا ٹھیک نہیں ،لیکن اس کی وجہ سے آپ کےلیے یہ جائزنہیں کہ ان کے ساتھ بدسلوکی،بدزبانی اور قطع تعلق   کریں۔آپ نرمی سے ان کو سمجھانے کی کوشش کریں اور نہ سمجھنے پر والدین کےساتھ حسن سلوک کےفضائل کا استحضار کرکےخاموشی اختیا ر کیا کریں جس پر آپ کو ثواب ملےگا اور ان کے لیے اس میں سبق بھی ہوگا، ان کواشتعال دلانے سے  مقدوربھر بچنے کی کوشش کریں ، ان کی اصلاح احوال کےلیے دعاکیا کریں وغیرہ۔

اگر آپ کو امامت کےبنیادی مسائل کا علم ہو، تلاوت میں فحش غلطیاں نہ کرتے ہو ں اور اہل محلہ آپ کےپیچھے نماز پڑھنے پر راضی ہو ں تو آپ کا نماز پڑھانا جائز ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 557)
(والأحق بالإمامة) تقديما بل نصبا مجمع الأنهر (الأعلم بأحكام الصلاة) فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، وقيل واجب، وقيل سنة (ثم الأحسن تلاوة) وتجويدا (للقراءة، ثم الأورع) أي الأكثر اتقاء للشبهات...(ولو أم قوما وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريما لحديث أبي داود «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوما وهم له كارهون» (وإن هو أحق لا) والكراهة عليهم...وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة، وكذا تكره خلف أمرد وسفيه ومفلوج، وأبرص شاع برصه، وشارب الخمر وآكل الربا ونمام، ومراء ومتصنع.
(قوله ثم الأحسن تلاوة وتجويدا) أفاد بذلك أن معنى قولهم أقرأ: أي أجود، لا أكثرهم حفظا وإن جعله في البحر متبادرا، ومعنى الحسن في التلاوة أن يكون عالما بكيفية الحروف والوقف وما يتعلق بها.

نعمت اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

13/شعبان/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نعمت اللہ بن نورزمان

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے