021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ہبہ کو شرعاً درست نہ مانتے ہوئے اسےقبول اور قبضہ کرنے کا حکم
83267ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

ایک شخص نے اپنے دو بیٹوں  کو چار د کانیں ہبہ کیں اور کاغذات میں    ہر بیٹے کے نام دو دو دکانیں تفصیل کے ساتھ ( معاہدہ کرایہ داری ، بجلی و پانی کا بل وغیرہ) لکھوایا  اور انہیں مکمل قبضہ  بھی کرایا ۔  دونوں بیٹوں نے ہبہ کو شرعا درست قرار نہ دے کر  ہبہ قبول کرنے سے انکار کیا اور عرصہ دراز تک  یہ کہتے رہے کہ ہمارے والد نے یہ دکانیں ٹیکس سے بچنے کے لیے ہبہ کی ہیں، البتہ والد کے ہبہ کرتے وقت چاروں دکانوں    سے  ملنے والے کرایہ کی وصولی کے لیے  اپنی رضامندی سے والد کو مقرر کیا   اور والد بھی ایک عرصۃ تک کرایہ وصول کرتے رہے،  البتہ  دونوں بیٹے اس ہبہ سے شرعا مطمئن نہ تھے لیکن اس کے باوجود دکانوں پر انہیں  مالکانہ قبضہ حاصل  تھا ۔ والد کی وفات کے بعد دونوں بیٹوں نے ہبہ کو درست قرار دے دیا اور اب  ان دکانوں کا کرایہ  بھی  خود وصول کررہے ہیں۔ کیا  ہبہ کو  ایک بار   شرعا درست قرار نہ دے کر  بعد میں اسے قبول کرنا درست ہے؟ کیا اس طرح ہبہ باقی رہ سکتا ہے  یا باطل ہوجاتا ہے؟

تنقیح: سائل سے زبانی بات کرکے معلوم ہوا کہ ہبہ کرتے وقت دونوں بیٹوں نے ہبہ قبول کرلیا تھا اور دکانوں کو کاغذات میں بھی بیٹوں کے نام لکھوایا گیا تھا، البتہ انہیں صرف اس بات کا خدشہ تھا کہ شرعا یہ ہبہ درست نہیں ہے، اس وجہ سے والد مرحوم کے ہبہ پر اعتراض کرتے رہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ہبہ کے صحیح ہونے کے لیے موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا جاتا ہو)کا ہبہ کردہ چیز پر قبضہ کرنا  ضروری ہے، چنانچہ اگر واہب موہوب لہ کو کوئی چیز ہبہ کرے اور موہوب لہ اسے قبول  کرکے اس پر قبضہ بھی کرے، تو ہبہ مکمل طور پر  درست  ہوجائےگا اور موہوب لہ  اس چیز کا مالک بن  جائے گا۔

صورتِ مسئولہ میں جب والد نے اپنے بیٹوں کو دکانیں ہبہ کیں،  تو  اگرچہ بیٹوں کو خدشہ تھا کہ یہ ہبہ شرعا درست نہیں ہوا  ہے،لیکن  جب قبول کرلیا تھا اور   ان دکانوں کو اپنے نام لکھوا نے پر راضی بھی تھے  اور ان پر مالکانہ قبضہ  بھی  کیا تھا اور  ان کے کرایہ کی وصولی کے لیے اپنے والد مرحوم کووکیل  مقرر  بھی کیا تھا، تو اس سے بیٹے   دکانوں کے مالک ہوگئے  ، لہذا   یہ  دکانیں  ہبہ کے وقت سے  ان کی ملکیت   شمار ہوں  گی ۔ لہذا  بیٹوں کے لیے دکانوں کو ہبہ کے طور پر لینا اور ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کو اپنے تصرف میں لانا جائز  ہے ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 688):
شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح.
(وركنها) هو (الإيجاب والقبول)...(و) تصح (بقبول) أي في حق الموهوب له أما في حق الواهب فتصح بالإيجاب وحده؛ لأنه متبرع.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690):
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 115):
أما ركن الهبة فهو الإيجاب من الواهب فأما القبول من الموهوب له فليس بركن استحسانا والقياس أن يكون ركنا....(وجه) الاستحسان أن الهبة في اللغة عبارة عن مجرد إيجاب المالك من غير شريطة القبول وإنما القبول والقبض لثبوت حكمها لا لوجودها في نفسها فإذا أوجب فقد أتى بالهبة فترتب عليها الأحكام والدليل على أن وقوع التصرف هبة لا يقف على القبول ما روي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه قال «لا تجوز الهبة إلا مقبوضة محوزة» أطلق اسم الهبة بدون القبض والحيازة...
فثبت أن الهبة في اللغة عبارة عن نفس إيجاب الملك والأصل أن معنى التصرف الشرعي هو ما دل اللفظ لغة ... ولأن المقصود من الهبة هو اكتساب المدح والثناء بإظهار الجود والسخاء وهذا يحصل بدون القبول.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 222):
الهبة ‌عقد ‌مشروع لقوله عليه الصلاة والسلام: "تهادوا تحابوا" وعلى ذلك انعقد الإجماع "وتصح بالإيجاب والقبول والقبض" أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد، والعقد ينعقد بالإيجاب، والقبول، والقبض لا بد منه لثبوت الملك .
مجلة الأحكام العدلية (ص: 162)
(المادة 841) القبض في الهبة كالقبول في البيع بناء عليه تتم الهبة إذا قبض الموهوب له في مجلس الهبة المال الموهوب بدون أن يقول: قبلت أو اتهبت عند إيجاب الواهب أي قوله: وهبتك هذا المال.
الفتاوى الهندية (4/ 374)::
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى ‌لا ‌يثبت ‌الملك ‌للموهوب له قبل القبض۔

صفی اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

14/ شعبان المعظم /1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی اللہ بن رحمت اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے