83327 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے جدید مسائل |
سوال
میرا کزن ایک ڈاکٹر کے کلینک پر یہ کام کرتا ہے کہ کلینک کے باہر مریض کو دیکھتا ہے تو اس کو مطمئن کر کے اسی کلینک میں لے آتا ہے ۔اس کلینک میں ایم۔بی۔بی۔ایس ڈاکٹر موجود ہوتا ہے۔ وہ ڈاکٹر سے ہر مریض کا کمیشن لیتا ہے ،مثلا مریض دس ہزار کی دوائی لیتا ہے تو اس کو دس ہزار پر ایک ہزار کمیشن ملتاہے ۔کیا یہ کمائی جائز ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ڈاکٹر کے کلینک کےباہر مریضوں کو مطمئن کرکے ان کو کلینک میں لے آنےکا پیشہ اختیار کرنا ناجائز اور باعث گناہ ہے،البتہ اگر وہ ملازم مریض کو مطمئن کرنے کےلیےجھوٹ نہ بولتا ہو،متعلقہ ڈاکٹر اس بیماری کا ماہر ہوجس میں مریض مبتلاہو اور اور کمیشن پہلےسے طے ہوتو اس کا کمیشن لینا جائز اور حلال ہےورنہ نہیں۔
حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (6/ 108)
(قوله وتلقي الجلب) لحديث الصحيحين عن ابن عباس «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أن تتلقى الركبان، وأن يبيع حاضر لباد» فقلت: لابن عباس ما قوله حاضر لباد قال لا يكون له سمسارا، وللمتلقى صورتان أحدهما أن يتلقاهم المشترون للطعام منهم في سنة حاجة ليبيعوه من أهل البلد بزيادة، وثانيها أن يشترى منهم بأرخص من سعر البلد، وهم لا يعلمون بالسعر، ومحمل النهي عندنا إذا كان يضر بأهل البلد أو لبس أما إذا انتفيا فلا بأس به
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 560):
وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.
نعمت اللہ
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
13/شعبان/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | نعمت اللہ بن نورزمان | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |