021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حرام کمانےوالےکی دعوت قبول کرنے کا حکم
83328جائز و ناجائزامور کا بیانکھانے پینے کے مسائل

سوال

میرا کزن جوا کھیلتا ہے،وہ اپنی کمائی سے ہمیں کبھی کھانا وغیرہ کھلاتا ہے تو ہمارے لیے وہ کھانا جائز ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حرام کمائی سے کی گئی دعوت کی مختلف صورتیں ہیں جو درج ذیل ہیں:

      1    : اگر کمائی کےتمام  ذرائع حرام ہوں تو دعوت قبول کرنا جائز نہیں۔

2: اگر کمائی حلال و حرام دونوں پر مشتمل   ہو،لیکن دونوں قسم کی کمائی   آپس میں مخلوط نہ ہو تو حلا ل کمائی سے کھلائی ہوئی   دعوت قبول کرنا جائز    ہےاور حرام کمائی سے کی گئی دعوت قبول کرنا جائز نہیں۔البتہ اگر حلال یا حرام کمائی سے کھلانے کا  پتہ نہ چل رہاہو تو غالب کمائی کا اعتبار ہوگا ،لہذا اگر غالب کمائی  حلال ہےتو دعوت قبول کرنا جائز ہےبشرطیکہ آپ کا کزن حرام  کمائی سے کھلانے کی تصریح نہ کردے اور اگر غالب کمائی  حرام ہے تو حلال کمائی سے کھلانے کی تصریح  کیےبغیر دعوت قبول کرنا جائز نہیں۔

  3: اگر حلا ل وحرام  کمائی دونوں آپس میں مخلوط ہوں تو بھی غالب کمائی کا اعتبار ہوگا ،لہذا اگر غالب کمائی حلال ہےتو دعوت قبول کرنا جائز ہےاور اگر غالب کمائی حرام ہے تو دعوت قبول کرنا جائزنہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 98)
 وفي حظر الأشباه: الحرمة تتعددمع العلم بها إلا في حق الوارث، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال...في الذخيرة: سئل الفقيه أبو جعفر عمن اكتسب ماله من أمراء السلطان ومن الغرامات المحرمات وغير ذلك هل يحل لمن عرف ذلك أن يأكل من طعامه؟ قال أحب إلي في دينه أن لا يأكل ويسعه حكما إن لم يكن ذلك الطعام غصبا أو رشوة وفي الخانية: امرأة زوجها في أرض الجور، وإن أكلت من طعامه ولم يكن عين ذلك الطعام غصبا فهي في سعة من أكله وكذا لو اشترى طعاما أو كسوة من مال أصله ليس بطيب فهي في سعة من تناوله والإثم على الزوج.
الفتاوى الهندية (5/ 342)
أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع.ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور؛ لأن الغالب في مالهم الحرمة إلا إذا علم أن أكثر ماله حلال بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به؛ لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام فالمعتبر الغالب، وكذا أكل طعامهم، كذا في الاختيار شرح المختار.

نعمت اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

13/شعبان/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نعمت اللہ بن نورزمان

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے