کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارےمیں کہ
ایک آدمی سے فرض نمازمیں ایک واجب غلطی سے چھوٹ گیا اور دوسرا اس نے جان بوچھ کر اس نیت سے چھوڑا کہ سجدہ سہو کرنا ہی ہے تو اس سے اس کا تدارک خود بخود ہوجائے گا،کیا اس طرح نماز پڑھنے والے کی نمازہوگئی یانہیں؟جبکہ سجدہ سہوکرلیاہو۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مسئولہ صورت میں شخصِ مذکوراگر دوسرا واجب عمداً نہ چھوڑتا اورآخرمیں سجدہ سہو کرلیتا تو اس کی نماز درست ہوجاتی،لیکن چونکہ اس نے دوسرا واجب قصداً ترک کردیاہے اور واجب کوقصداً ترک کرنے سے سجدہ سہو کر لینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اعادہ صلوۃ (نماز کا لوٹانا) واجب ہوتا ہے، لہٰذاشخصِ مذکور پر اس نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے۔
حوالہ جات
لمافی الھندیۃ(۱/۱۲۶):
وفی الولوالجیۃ: الأصل فی ھذا أن المتروک ثلاثۃ أنواع فرض وسنۃ، وواجب … وفی الثالث ان ترک ساھیاً یجبر بسجدتی السھو وان ترک عامداً لا کذا فی التاتارخانیۃ وطاھر کلام الجم الغفیر أنہ لا یجب السجود فی العمد وانما تجب الاعادۃ جبراً لنقصانہ، کذا فی البحرالرائق.
وفی البحر الرائق(۱۶۱/۲):
وظاھر کلام الجم الغفیر أنہ لایجب السجود فی العمد وانما تجب الاعادۃ اذا ترک واجباً عمدا جبر النقصانہ، وذکر الولوالجی فی فتاواہ أن الواجب اذا ترکہ عمدا لا ینجبر بسجدتی السہو لانھا عرفتا جابرتین بالشرع والشرع ورد حالۃ السہو وجعلھا مثلاً لھذا الفائت لا فوقہ.
وفی الشامیۃ(۷۹/۲):
ولو بنی علی الفرض تطوعاً وقد سہا فی الفرض لا یسجد اھـ… لان النفل صلاۃ أخری غیر الفرض ولا یمکن ان یکون سجود السہو لصلاۃ واقعاً فی صلاۃ أخری مقصودۃ وان کانت تحریمۃ الفرض باقیۃ فلذا لا یسجد، أو لانہ لما بنی النفل عمدا صار مؤخراً للسلام عن محلہ عمدا، والعمد لا یجبرہ سجود السہو بل تلزم فیہ الاعادۃ، وحیث کانت الاعادۃ واجبۃ لم یبق السجود واجبا عن سہوہ فی الفرض لانہ بالاعادۃ یأتی بماسھا فیہ، والسجود جا بر عما فات قائم مقام الاعادۃ، فاذا وجبت الاعادۃ سقط السجود.