78872 | طلاق کے احکام | طلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان |
سوال
فتویٰ نمبر 78644/62 میں سوال کو میں صحیح طورپرنہیں بیان کر سکا لہذا سوال میں کچھ تصحیح کرنا چاہتا ہوں کہ ایک دن پورا گز رچکا تھااور دن 12 بجے تک اہلیہ گھر نہیں آئیں تھیں اور دوسرے دن فون پر رابطہ کے بعد دن11 بجے اہلیہ کو لینے ان کے گھر چلا گیا تھا اور جب اہلیہ کو گھر لایا تو اس وقت دن کے 1.30 بج رہے تھے لہٰذا دوسرے دن چونکہ میں 12 بجے سے پہلے اہلیہ کو لینے کی نیت سے ان کے گھر پہنچ گیا تھا ،لیکن سسرال کے بزرگوں سے بات چیت میں اور گھر پہنچنے میں تاخیر ہوئی اس صورت میں دوسری طلاق ہوئی یا نہیں اور اگر ہوئی تو شریعت کا کیا حکم مجھ پر لاگو ہو گا برائے کرم راہنمائی فرمایئے ۔
پہلے پوچھے گئے سوال کا متن۔۔۔ آج سے تقریباً 7 سال پہلے کی بات ہے کہ میری اہلیہ ناراض ہو کر مجھے بتائے بغیر اپنے گھر چلی گئی تھی اور میری کم علمی تھی کہ میں نے غصے میں آ کر موبائل پرمیسج بھیج دیا کہ اگر اگلے روز دن 12 بجے تک گھر واپس نہیں آئی تو میری طرف سے ایک طلاق، دوسرے روز دن 12بجے تک نہ آنے کی صورت میں دوسری اور تیسرے روز تیسری، لیکن دوسرے دن فون پر رابطے کے بعد میں اپنی اہلیہ کو خود گھر لے آیا جس وقت میں گھر پہنچا اس وقت دن کے1.30 بج رہے تھے یہ واقع جب ہوا تھا اس وقت میرا ایک بچہ تھا اب ماشاءاللہ کل پانچ بچے ہیں اس مسئلہ میں راہنمائی فرمائیں کہ ایک طلاق واقع ہوئی یا دو اور مجھ پر شریعت کا کیا حکم لاگو ہوتا ہے ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ہرطلاق کو اس دن کے 12 بجے تک گھرواپس نہ آنے پرمعلق کیاگیاتھا،صورت مسؤلہ میں بیوی دوسرے دن گھر12 بجے کے بعدپہنچی تھی، اس لئے دوطلاق رجعی واقع ہوئی ہیں،آئندہ ایک طلاق کااختیارآپ کے پاس ہے،مزید ایک طلاق کسی موقع پردیدی توتین طلاقیں واقع ہوکربیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی۔
حوالہ جات
فی الفتاوى الهندية (ج 9 / ص 213):
"إذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته : إن دخلت الدار فأنت طالق."
محمد اویس
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
۱۶/جمادی الثانی ۱۴۴۴ ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |