021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چوری کا مال خریدنا
78811جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

اگر آپ کو یقین ہو کہ یہ فلاں بندے نے کسی سے چوری کیا ہے تو اس مال کا اس سے خریدنا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بیع کی صحت کی شرائط میں سے ایک شرط مبیع کا بیچنے والے کی ملک ہونا ہے،لہذا ایسی چیز کا خریدنا جائز نہیں جس کے بارے میں چوری شدہ ہونے کا یقین یا غالب گمان ہو،کیونکہ خریدنے کے باوجود یہ چیز خریدنے والے کے لئے حلال نہیں ہوگی،بلکہ اصل مالک کو لوٹانا لازم ہوگا۔

نیز حدیث میں آتا ہے کہ جس نے ایسی چیز خریدی جس کے بارے میں اسے معلوم ہو کہ یہ چوری کی ہے تو وہ بھی چور کے ساتھ چوری جیسے شنیع فعل کے عار اور گناہ میں شریک ہوگا۔

حوالہ جات
السنن الكبرى للبيهقي (5/ 548)
عن أبي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " من اشترى سرقة وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها ".
"رد المحتار" (5/ 99):
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه".
"رد المحتار" (5/ 98):
(قوله الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريبا (قوله ولا للمشتري منه) فيكون بشرائه منه مسيئا؛ لأنه ملكه بكسب خبيث، وفي شرائه تقرير للخبث، ويؤمر بما كان يؤمر به البائع من رده".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

15/جمادی الثانیہ1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے