021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تذکرہ طلاق کے وقت عدم نیت طلاق سے لفظ آزاد استعمال کرنے کا حکم
72112طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

میری شادی 2002 میں ہوئی ۔ میں نے تقریبا ایک سال پہلے مفتی طارق مسعود صاحب کا ایک بیان فیس بک پر دیکھا ، جس میں انہوں نے بولا کہ آزاد لفظ سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ یہ بیان سن کر میری دنیا ہی بدل گئی ۔ میں نے اپنے شوہر سے علیحدہ رہنا شروع کر دیا کہ آپ پہلے مفتی صاحب سے فتوی لے کر آئیں ۔ ہمارے گھر کے قریب ایک چھوٹی سی مسجد ہے۔ وہاں پر ہم نے امام صاحب سے بات کی تو انہوں نے بول دیا کہ آپ کی طلاق واقع ہو گئی ہے ۔مفتی طارق مسعود صاحب سے ہم نے جا کر بات کی تو انہوں نے ہمیں یہاں کا ایڈریس دیا ۔ مفتی طارق مسعود صاحب نے تو کہا تھا کہ آپ کو تحریری فتوی کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ ساتھ رہتے رہیں لیکن ہماری فیملی کو تحریری فتوی چاہیے۔ دراصل میرے شوہر کو ہر بات پر چاہے مذاق میں ہو یا غصے میں یا نارمل ، آزاد لفظ بولنے کی عادت ہے ۔ مطلب میں کچھ بھی بولوں وہ بولتے ہیں آزاد ہو ۔ جو مرضی کرو وغیرہ لیکن کچھ سالوں پہلے تقریبا 7 سے 8 سال پہلے میرے شوہر اور میرے بیچ تھوڑی سی تلخی ہو گئی تھی ۔ میں بہت غصے میں تھی لیکن شوہر اس ٹائم غصے میں نہیں تھے ۔ میں نے کہا میں اپنے گھر جا رہی ہوں تو میرے شوہر نے کہا" جاؤ ، مرضی ہے " مجھے غصہ آ گیا اور میں نے کہا " کیوں جاؤں ، جب آپ کا دل کیا ، لڑائی کر کے گھر بھیج دیا تا کہ سکون سے اپنی کبوتر بازی کر سکیں لیکن اب میں ایسے نہیں جاؤں گی ۔ بھیجنا ہے تو ایک دفعہ بھیج دو ہمیشہ کے لیے ۔تو انہوں نے طلاق نہیں دی ۔ میں نے ان کی شرٹ پکڑی ہوئی تھی ۔ انہوں نے چھڑاتے ہوئے کہا کہ پاگل ہو گئی ہو تم اورہنس کر باہر جانے لگے ۔ میں نے چیخ کر کہا "میں اپنے گھر جا رہی ہوں "۔ انہوں نے جواب دیا " آزاد ہو" اور باہر چلے گئے لیکن تھوڑی دیر بعد آگئے اور مجھے منا لیا اور ہماری صلح ہو گئی ۔براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہو گئی ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زوجین کی باہم گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بیوی نے طلاق دینے کا مطالبہ کیا تو شوہر نے انکار کر دیا ، اور جب بیوی نے گھر جانے کا تذکرہ کیا تو شوہر نے یہ جملہ کہا" تم آزاد ہو "۔گفتگو کے اس سیاق سے یہ بات واضح ہے کہ اس جملے سے شوہر کا مقصد طلاق دینا نہیں تھا ، بلکہ بیوی کو گھر جانے کی اجازت دینا تھا ، لہذااگر یہ بات درست ہے یعنی شوہر بھی اس کا دعوی کرتا ہے تو  صورت مسئولہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 296)
(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها)قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 297)
(قوله قضاء) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية، ولو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط كما هو صريح البحر وغيره (قوله أو دلالة الحال) المراد بها الحالة الظاهرة المفيدة لمقصوده ومنها ما تقدم ذكر الطلاق بحر عن المحيط؛ ومقتضى إطلاقه هنا كالكنز أن الكنايات كلها يقع بها الطلاق بدلالة الحال. قال في البحر: وقد تبع في ذلك القدوري والسرخسي في المبسوط؛ وخالفهما فخر الإسلام وغيره من المشايخ فقالوا بعضها لا يقع بها إلا بالنية اهـ وأراد بهذا بعض ما يحتمل الرد كاخرجي واذهبي وقومي؛ لكن المصنف وافق المشايخ في التفصيل الآتي فبقي الاعتراض على عبارة الكنز. وأجاب عنه في النهر بما ذكره ابن كمال باشا في إيضاح الإصلاح بأن صلاحية هذه الصور للرد كانت معارضة لحال مذاكرة الطلاق فلم يبق الرد دليلا؛ فكانت الصورة المذكورة خالية عن دلالة الحال ولذلك توقف فيها على النية.

عبدالدیان اعوان

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

13 رجب 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب