74596 | وقف کے مسائل | مسجد کے احکام و مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کہ بارے میں کہ ہماری مسجد کا پرانا کارپٹ اسٹور میں پڑا ہے ، مسجد کے لیے نیا منگوالیا گیا ہے، پرانا کارپٹ استعمال کے قابل ہے، اور گاؤں میں اس کو کوئی خریدنے والا بھی نہیں ہے،متولی صاحب فرمارہے تھے فضول پڑا ہے جلا دیتے ہیں ، آپ رہنمائی فرمائیں اس کا صحیح مصرف کیا ہو سکتا ہے؟ کسی اور مسجد ،مدرسہ یا کسی غریب کو دے سکتے ہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مسجد کے لیے خریدی گئی چیزیں مسجد کے وقف کی ملکیت میں آجاتی ہیں ،انہیں ضرورت کے مطابق ہی خریدنا چاہیے اور حتی الامکان مسجد کے لیے ہی استعمال کرنا چاہیے ، اگر کبھی کوئی چیز استعمال میں نہ آپائے اور اس کے بوسیدہ ہونے کا بھی اندیشہ ہو تو اسے معروف قیمت پر بیچ کر رقم وقف فنڈ میں جمع کرانی چاہیے ، اگر اس کا کوئی خریدار نہ ہو اور خرابی کا قوی اندیشہ ہو تو اسے ضائع کرنے کے بجائے کسی اور مسجد میں عطیہ کردینا چاہیے ، قابل استعمال چیز کو تلف کرنا درست نہیں ۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ:وأما الحصر والقناديل فالصحيح من مذهب أبي يوسف أنه لا يعود إلى ملك متخذه بل يحول إلى مسجد آخر أو يبيعه قيم المسجد للمسجد.(البحرالرائق:5/272)
وقال ایضا:وهكذا نقل عن الشيخ الإمام الحلواني في المسجد والحوض إذا خرب ولا يحتاج إليه لتفرق الناس عنه أنه تصرف أوقافه إلى مسجد آخر أو حوض آخر. ( البحر الرائق:5/272)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ: (قوله: ومثله حشيش المسجد إلخ) أي الحشيش الذي يفرش بدل الحصر، كما يفعل في بعض البلاد كبلاد الصعيد كما أخبرني به بعضهم قال الزيلعي: وعلى هذا حصير المسجد وحشيشه إذا استغنى عنهما يرجع إلى مالكه عند محمد وعند أبي يوسف ينقل إلى مسجد آخر.(ردالمحتار:4/359)
محمد طلحہ شیخوپوری
دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی
10ربیع الثانی/1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |