021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لواطت ﴿ بد فعلی﴾ کی سزا کے بارے میں غلط فیصلہ کاحکم
77483جائز و ناجائزامور کا بیانبچوں وغیرہ کے نام رکھنے سے متعلق مسائل

سوال

جناب  مفتی صاحب  عرض یہ ہے کہ  ایک گاؤں  میں  زید اور بکر دولڑکوں  نے  نعمان  نامی لڑکے کےساتھ  بد فعلی  کی ۔معاملہ  جرگے میں  پیش ہوا  تو  جرگے والوں نے  یہ فیصلہ  دیا ہے کہ    بدلے  کے طورپر   نعمان  بھی باری  باری دونوں  لڑکوں سے بد فعلی کرے۔جرگے  میں  فیصلہ کے وقت  ایک عالم  دین امام  مسجد، مدرسہ کے ذمے دار  بھی  موجود  تھے، انہوں   اس فیصلے  پر خاموشی اختیار کی جس  کی وجہ سے  لوگوں میں  اضطراب پھیل  گیا ۔ لوگوں نے ان کا بائیکاٹ  شروع کیا ،ان کی  اقتدا  میں نماز پڑھنے سے ان کے مدرسہ  میں بچوں  کو  تعلیم دلانے  سے تشویش کا شکار ہیں ، اب سوال یہ ہے کہ   جب  مذکورہ  عالم  فیصلہ کے وقت  موجود  تھے اورانہوں  نے اس غلط فیصلے پر خاموشی اختیار کی ،تو ان کی اقتدا  میں نماز پڑھنا جائز  ہے یا  نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

لواطت ﴿ بد فعلی﴾ بہت ہی گندا فعل ہے ،کبیرہ  گناہ ہے ،قرآن وحدیث میں اس قبیح فعل پرسخت وعیدیں آئی ہیں اگرکسی  نے اس غلط  فعل کا  ارتکاب کیا  ہے تو  اس کے لئے زناکاری  کی طرح  کوئی  متعین سزا  تو نہیں  ہے ،لیکن  شریعت  نے  قاضی کو  اختیار دیا ہے  کہ  جرم کی نوعیت  دیکھ کر اس پر  کوئی تعزیری  سزا  جاری کرے۔ اگر  کوئی بد بخت اس حرام  فعل کا عادی  ہوتو اس  کوقتل کرنے کےلئے عدالت کو اختیار ہے کہ  اس کو کسی  اونچی عمارت سے  نیچے گرا  دیاجائے، یااس کو دیوار کے نیچے کھڑا  کرکے  اس پر  دیوار  گرائی جائے ،وغیرہ ذلک۔لیکن  سزا کے طور پر  الٹا بدفعلی  کروانا   یہ شریعت کے خلاف ہے،سوال میں جس فیصلہ کا ذکر ہے  یہ  قرآن وحدیث کے نصوص کے خلاف ایک غلط اور  ناجائز فیصلہ ہے ۔  جو لوگ  اس موقع پر حاضر تھےان میں سے کسی فرد کے لئےاس  ناجائز  فیصلے پر خاموشی اختیار کرنا جائز نہیں تھا، بلکہ  اس پر نکیر کرنا لازم تھا ، اس لئے جولوگ اس  فیصلے میں شریک تھے سب گناہ ہگار ہیں سب پر اجتماعی  اور انفرادی  طور پرتو بہ  واستغفار کرنالازم ہے ۔ البتہ  اگر کوئی شخص معروضی  حالات کی وجہ سےاس موقع پر  خاموش  رہنے پر  مجبور  ہو اور دل سے  اس کو برا سمجھ  رہاہو تو اس طرح خاموش رہنا قابل مواخذہ  نہیں ۔

 لہذا  صورت  مسئولہ میں اگر امام صاحب نے  مجبوری  کی بناء  پر خاموشی اختیار کی ہے تو عوام کا ان پر  غصے کا اظہار کرنا،ان کی اقتدا ء میں نماز  نہ پڑھنا یہ درست نہیں ، ان  کی بجائے جرگے  میں  بیٹھ  کرغلط فیصلہ  کر نے والوں کےخلاف ایکشن لینا  چاہئے ۔  تاکہ  جتنے لوگ  اس غلط فیصلے میں شریک ہوئے  ہیں  سب اس فعل سے توبہ کریں اور یہ تینوں لڑکے بھی توبہ کریں اور آیندہ کے لئے اس خبیث  فعل سے اپنے کو  دور رکھیں۔

حوالہ جات
مشكاة المصابيح للتبريزي (2/ 313)
وعن عكرمة عن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من وجدتموه يعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل والمفعول به " . رواه الترمذي وابن ماجه
مشكاة المصابيح للتبريزي (2/ 315)
عن ابن عباس وأبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " ملعون من عمل عمل قوم لوط " . رواه رزين
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 27)
أو) بوطء (دبر) وقالا: إن فعل في الأجانب حد. وإن في عبده أو أمته أو زوجته فلا حد إجماعا بل يعزر. قال في الدرر بنحو الإحراق بالنار وهدم الجدار والتنكيس من محل مرتفع باتباع الأحجار. وفي الحاوي والجلد أصح وفي الفتح يعزر ويسجن حتى يموت أو يتوب؛ ولو اعتاد اللواطة قتله الإمام سياسة.
قلت: وفي النهر معزيا للبحر: التقييد بالإمام يفهم أن القاضي ليس له الحكم بالسياسة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 27)
مطلب في حكم اللواطة (قوله بنحو الإحراق إلخ) متعلق بقوله يعزر. وعبارة الدرر: فعند أبي حنيفة يعزر بأمثال هذه الأمور. واعترضه في النهر بأن الذي ذكره غيره تقييد قتله بما إذا اعتاد ذلك. قال في الزيادات: والرأي إلى الإمام فيما إذا اعتاد ذلك، إن شاء قتله، وإن شاء ضربه وحبسه. ثم نقل عبارة الفتح المذكورة في الشرح، وكذا اعترضه في الشرنبلالية بكلام الفتح. وفي الأشباه من أحكام غيبوبة الحشفة: ولا يحد عند الإمام إلا إذا تكرر فيقتل على المفتى به. اهـ. قال البيري: والظاهر أنه يقتل في المرة الثانية لصدق التكرار عليه. اهـ

 احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۸ محرم الحرام  ١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب