78407 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
میں نے ایک ایسی خاتون سے شادی کی ہے جس نے کورٹ سے خلع کی ڈگری لی ہوئی ہے،جبکہ اس خاتون کا یہ کہنا ہے کہ میرے سابقہ شوہر اس پر راضی نہیں تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ میں کبھی طلاق نہیں دوں گا۔ کورٹ میں جج کے سامنے بھی سابقہ شوہر کا یہ ہی بیان تھا کہ میں ان کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ مزید یہ کہ جب سابقہ شوہر کو پتہ چلا کہ یہ دوسری جگہ شادی کر رہی ہیں تو تب بھی انہوں نے رابطہ کرکے صلح کی کوشش کی، لیکن اس خاتون کے گھر والے نہیں مانے۔ اب بندہ یہ چاہتاہے کہ کورٹ کے پیپرز کو مدنظر رکھتے ہوئے شریعت کے مطابق رہنمائی فرمائیے۔کورٹ کے پیپرز کی فوٹوکاپی ساتھ لف ہے۔اس صورت حال کے پیش نظر میرا نکاح اس خاتون سے ہوا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہوا تو شریعت کی رو سے اس کا کوئی حل ہے؟
وضاحت: سائل نے فون پربتایا کہ سابقہ شوہر نشہ کرتا تھا، مگر لڑکی کو نکاح کے کچھ عرصہ بعد علم ہوا، ایک مرتبہ دو مرتبہ لڑکے نے لڑکی کو نشہ کی حالت میں مارا، پھر جب نشہ اترا تو اس کو بہت افسوس اور ندامت ہوئی، اس کے بعد دونوں خاندانوں کی بات چلی تو لڑکی کے باپ نے کہا میں دو سال کی مہلت دیتا ہوں، بشرطیکہ یہ اپنی بیوی اور بچے سے نہ ملے، مگر شوہر سات ماہ کے بعد بچے کو ملنے کے لیے چلا گیا، لڑکی کے باپ کو جب علم ہوا تو اس نے غصے میں آ کر اب ہم نے خلع ہی لینا ہے، لڑکے نے صلح کی کوشش کی، مگر لڑکی کا باپ نہ مانا، سابقہ شوہر نےعدالت میں بھی کہا تھا کہ مجھے کچھ مہلت دے دیں، مگر جج نے اس کی بات نہیں سنی اور خاتون کے والد کا بھی کہنا یہی تھا کہ ہم اس کو مہلت نہیں دینا چاہتے اوربالآخر اس نے عدالت سے خلع کی ڈگری جاری کر دی گئی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
منسلکہ عدالتی فیصلہ میں خلع کے الفاظ لکھے گئے ہیں اور خلع کے شرعاً معتبر ہونے کے لیے میاں بیوی کی باہمی رضامندی کا ہونا ضروری ہے، بغیر شوہر کی رضامندی کے خلع درست نہیں ہوتا، جبکہ سوال میں تصریح کے مطابق شوہر نے ابھی تک اس فیصلے پر رضامندی کا اظہار نہیں کیا اورنہ ہی شوہر کے اس فیصلے پر دستخط موجود ہیں، بلکہ سائل کے بقول شوہر نے عدالت کے سامنے یہ بھی کہا کہ مجھے کچھ مہلت دے دی جائے، مگر اس کے باوجود خلع کی ڈگری جاری کر دی گئی، اس لیے بطورِ خلع یک طرفہ جاری کیا گیا یہ عدالتی فیصلہ شرعاً معتبر نہیں، جہاں تک فسخِ نکاح کا تعلق ہے تو منسلکہ فیصلہ میں فسخِ نکاح کی کوئی معتبر وجہ ذکر نہیں کی گئی، اس لیے اس فیصلہ کو فسخِ نکاح کے طور پر بھی شرعاًمعتبر قرار نہیں دیا جا سکتا، لہذا اس فیصلہ کی وجہ سے نکاح ختم نہیں ہوا، بلکہ شرعی اعتبار سے فریقین کے درمیان نکاح بدستورقائم ہے اور عورت کا شوہر سے طلاق یا اس کی رضامندی سے خلع لیے بغیر دوسری جگہ نکاح کرنا ہرگز جائز نہیں تھا۔
اب حکم یہ ہے کہ مذکورہ خاتون کا آپ کے ساتھ شرعاً نکاح نہیں ہوا، کیونکہ کسی کی منکوحہ عورت سے نکاح کرنا حرام اور ناجائز ہے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا تعلق رکھنا ہرگز جائز نہیں، لہذا آپ دونوں پر لازم ہے کہ فوری طور پر علیحدگی اختیار کریں اور اب تک جتنا عرصہ اکٹھے رہے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ واستغفار کریں، کیونکہ اگرچہ یہاں مسئلہ سے ناواقفیت کی وجہ سے فریقین کے درمیان نکاح اور وطی بالشبہہ ہوئی ہے، لیکن نکاح جیسے اہم اور محتاط معاملے میں شرعی مسئلہ سے لاعلمی اور کوتاہی کی وجہ سے آپ دونوں اس میں گناہگار ہوئے ہیں، لہذا آئندہ بغیر تحقیق کے اس طرح کے فعل سے مکمل احتیاط اور اجتناب کرنا ضروری ہے۔
حوالہ جات
۔۔۔۔
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
12/ جمادی الاولیٰ 1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |