021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث سے متعلق ایک اہم مسئلہ
80360میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

1۔ میں نے ایک نہایت اہم مسئلہ  کے متعلق دریافت کرنا ہے جس نے  نہایت  خلجان میں ڈال رکھا ہے۔مسئلہ کچھ یوں ہے کہ میرے والد صاحب کا 2018 ء میں انتقا ل ہوچکاہے انتقال سے قبل اپنی حیات ہی میں حالتِ صحت   میں  انہوں نے پاکستا ن میں انکی جتنی بھی منقولہ ( بینک میں موجود کیش،ایک گاڑی ،فیکٹریوں میں موجود اسٹاک  وغیرہ )وغیر منقولہ جائیداد ( چند ٹیکسٹائل فیکٹریاں  ،پراپرٹی وغیرہ ) کی باقاعدہ اپنی اولاد یعنی   3 بیٹوں 2 بیٹیوں اور زوجہ کی موجود گی میں   اور ان کی رضامندی  سے باقاعدہ طور پر ویلیویشن کی اور پھر انہیں اس طرح تقسیم کردیا کہ مذکورہ جائیداد کا ٪33 فیصد اپنے نام پر کروالیا جبکہ بقیہ٪67 فیصد کی تقسیم اس طرح کی کہ اس کے9 حصہ کرکے 3 حصہ بڑے  بیٹے کو( کیوں کہ اس سے قبل والدصاحب ایک بیٹے کو کافی کچھ دیکر الگ کرچکے تھے جبکہ بڑا بیٹا  تمام کاروبار میں والد صاحب کے شانہ بشانہ اور موت تک انکی خدمت میں مصروف تھا اس لئے بڑے بیٹے کی خواہش پر انہیں زیادہ حصہ والد نے عطا کیا ) ،بقیہ دو بیٹوں کو 2،2 اور دوبیٹیوں کو 1،1 حصہ انکے نام کرکے  دے دئیے اور اس پر باقاعدہ سب  سے دستخط بھی لے لئے مزید یہ کہ اسکی قانون کے مطابق will ( وصیت ) بھی بنوادی  جس کے گواہ اور ان کے دستخط بھی موجود ہیں اور اس وصیت کی پاور آف اٹارنی بھی بڑے بیٹے کو سونپ دی ۔اور انتقال سے قبل  اپنی  حیات میں والد صاحب نے دوبیٹوں کو  ان کا حصہ الگ کرکے باقاعدہ انکے قبضہ میں دے دیا ۔جبکہ    بڑے بیٹے کو   اس کا  حصہ دیکر   وفات تک ان کے ساتھ رہ کر ان کی سرپرستی فرماتے رہے جبکہ بیٹیوں کو ان کا  حصہ نقدی کی صورت میں دینے کی  بڑے بیٹے     کو وصیت کی ۔جب کہ  والد صاحب نے  ٪33 فیصد حصہ جو اپنے لئے رکھا تھا   ، بڑے بیٹے کے ساتھ  رہ کر اس کی نگرانی  اور انتظام اپنی وفات تک کرتے رہے ۔چناں چہ والد صاحب کے انتقال کے بعد بڑے بیٹے نے  والد صاحب کی اپنی زندگی میں حسب تقسیم اور مطابقِ وصیت ٪67 فیصد جائیداد  میں بیٹیوں کو ان کا حصہ  جو کہ  والد صاحب نے کیش کی صورت میں دینے کا کہا تھا  پر عملدر آمد کرنے کی طرف متوجہ ہوئے  لیکن وہ معترض ہوئیں اور بجائے  نقدی کے پراپرٹی(غیر منقولہ جائیداد )  میں حصہ کا مطالبہ کیا  جس پر بڑے بھائی نے انکی خواہش کا احترام کرتے ہوئے بجائے نقدی کے  انہیں ان  کی  مطلوبہ پراپرٹی دے دی جس کا سارا حساب کتاب نفع وغیرہ وہ خود دیکھتے ہیں ۔

             2)۔جبکہ بقیہ ٪33 فیصد چوں کہ والد صاحب کے نام اور انکے زیر انتظام تھا جس کی تقسیم مثال کے طور پر اس طرح ہوئی کہ  ان 33 فیصد جائیداد کی ویلیو 42 روپے تھی جس میں سے والد صاحب نے اپنی زندگی میں   25 روپے ایک بیٹے کو باقاعدہ صراحت کے ساتھ قرض کے طور پر دئے تھے جو کہ ابھی تک اس نے  واپس نہیں کئے ہیں جبکہ بقیہ  17 روپے بڑے بیٹے نے شرعی اصولوں کے مطابق بطور میراث کے  ورثاء میں تقسیم کردئے سوائے اس بیٹے کے جس نے قرض لیا تھا اور ابھی تک  واپس نہیں کیا ہے ،17 روپوں میں سے اس کا حصہ اسے نہیں دیا گیا ہے ۔

چنانچہ اس صورتحال کے پیش نظر دریافت  طلب امر یہ ہے کہ پیرا گراف نمبر 1 کے مطابق والد صاحب کا اپنی زندگی ہی میں اس طرح  جائیداد کی تقسیم کردینا کیسا ہے اور پھر اس پر باقاعدہ وصیت نامہ بناکر وفات کے بعد انکے  بڑے بیٹے کا  اس  کے مطابق  عملدرآمد کرتے ہوئے بہنوں کو انکا حصہ بجائے نقدی  ،غیرمنقولہ جائیداد کی صورت میں دینے کا کیا حکم ہے ؟اور  پیراگراف نمبر 2 کے مطابق بقیہ ٪33  فیصد والد صاحب کا اپنے نام پر کروانا اور پھر وفات کے بعد اس میں مذکور طریقہ کار  کےمطابق تقسیم کا عمل کرنا کیسا ہے ؟اگر اس حوالے سے مزید کچھ کرنا ہو جیسے  بیٹے کو دئے گئے قرض کے متعلق کو ئی بات ہو تو اس کے بارے میں رہنمائی فراہم کردیجئے۔ والسلام

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 زندگی  میں ورثاء  میں مال تقسیم کرنا شرعا  اس کا حکم  ھبہ کا ہے ،اس میں  اصل حکم  یہ ہے کہ  لڑکے  اور  لڑکیوں کو  برابر  مال دیاجائے ،دینداری  ،خدمت گذاری  اوراحتیاج  جیسے  کسی وجہ ترجیح کے بغیر  کے مال  دینے میں اولاد میں سے کسی  ایک کو  دوسروں  پر ترجیح  نہ دیجائے ۔

اور ھبہ مکمل  ہونے کے لئے ضروری کہ جس  بیٹا یا بیٹی کو  جو مال  دیا گیا  ہے  اس کو  باقاعدہ تقسیم کرکے اپنی ملک سے جدا کرکے اس کے حوالے کردیا جائے ۔اگر ھبہ کے بعد  با ضابطہ  تقسیم  کرکے  حوالے نہیں  کیاتو  شرعا  یہ ھبہ  نامکمل  اور غیر  معتبر  ہوتا  ہے ۔

کسی شخص  کا اپنی  زندگی  میں ورثاء کے لئے  مال کے حصے متعین  کرکے  اس پر عمل  کرنے  کی وصیت کرنا شرعا ناجائز اور غیر معتبر  ہے ،اس لئے  بعد  میں اس  پر عمل نہیں  کیاجائے  گا بلکہ  مال کو  میراث کےاصول کے مطاق  تقسیم کرنا  لازم ہے ،

      اس تفصیل کے بعد  مسئلہ کا حکم یہ ہے  کہ  مرحوم نے  اپنی  زندگی  میں اپنی  اولاد میں مال تقسیم کرنے کا  جو عمل  کیا ہے      شرعایہ  ھبہ  کے  حکم  میں  ہے،اگر  چہ  اس میں  مستحب  طریقہ  برابری  کا تھا   لیکن  بڑے بیٹے  کی خدمت گذاری کی  وجہ      سے  ان کاحصہ  زیادہ  رکھا وجہ  ترجیح  موجود ہونے کی وجہ سے  اس عمل  کو جائز کہاجائے گا ،البتہ اس میں  بیوی کا  اٹھواں       حصہ  نہیں  رکھا گیا  حالانکہ  زندگی میں میراث کے اصول  پر مال  تقسم کرنے کی  صورت بیوی کو بھی اٹھواں  حصہ  دینا   میراث  کے قانون کے  مطابق ضروری  ہوتا  ہے ،  جبکہ  مسئولہ صورت  میں بیوی  کو  اٹھوں  حصہ  نہیں  دیا گیا  جومرحوم  کی غلطی تھی، لہذابیٹے  اگر اس غلطی کی تلافی کرتے ہوئے  ماں کو  اٹھواں  حصہ دیدیں  توبہتر  بات  ہوگی ۔

 اورمال کاحکم  یہ ہے کہ   مرحوم  نے  اپنی زندگی میں  67 فیصد  مال  جو  اولاد  میں تقسیم کرکے  ہرایک کو  اس کے حصے کا مالک  بنادیا  ہے اس میں  جس کو  جتنے مال  کا مالک  بنایا  وہ  اس مال کا  مالک بن گیا ، اس کے علاوہ  33فیصد مال جو  مرحوم  کے انتقال کے وقت  تک مرحوم کی  ملک میں  رہا اس کو  میراث کے اصول  کے  مطابق اس طرح تقسیم کیاجائے  کہ مال کو  مساوی  64  حصوں میں تقسیم کرکے      مرحوم  کی  بیوہ کو 8حصے اور  تینوں  بیٹوں  میں سے  ہرایک  کو 14، 14 حصے اور  مرحوم  کی دونوں بیٹیوں کو  7،7حصے  دئیے  جائیں  گے۔

نوٹ؛

   اختلافات کو  ختم کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی  ہے  کہ میراث کو از سر نو  شریعت کے  مطابق  تقسیم کیاجائے ۔

اس کا طریقہ یہ  ہوگا کہ جس بیٹے  کے  پاس والد  مرحوم  کی طرف سے  ملا ہوا  جو مال  ہے  سب امانتداری  کے ساتھ  واپس کردیں  اس کے بعددیکھا جائے  کہ  انتقال  کے وقت  مرحوم  کی  ملک میں منقولہ غیر منقولہ  جائداد ، سونا چاندی  ،نقدی اور   چھوٹا  بڑا جو بھی  سامان  تھا سب مرحوم کا ترکہ ہے ،اس میں سے اولا کفن دفن کا  متوسط خرچہ نکالاجائے ،اس کے بعد اگر  مرحوم  کے ذمے کسی  کا  قرض ہو  تواس کو کل مال سے ادا  کیاجائے اس کے بعد اگر  مرحوم  نے کسی غیر وارث کے لئے کوئی جائز و صیت کی   ہو تو تہائی مال کی حدتک  اس پر عمل کیاجائے ، اس کے  بعد  مال کو  مساوی   64  حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم  کی  بیوہ کو 8حصے اور  تینوں  بیٹوں  میں سے  ہرایک  کو 14، 14 حصے اور  مرحوم  کی دونوں بیٹیوں کو  7،7حصے  دئیے  جائیں  گے۔     

حوالہ جات
....

             احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

١۷ ذی قعدہ  ١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب