021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک وارث سے صلح کرنے کا حکم
81619میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

ہمارے دادا کا انتقال  ہوگیا  ، انہوں  نے اپنی  زندگی میں  ایک مکان   پگڑی پر حاصل  کیاتھا 7000ہزار   روپے میں ، مالک   مکان ان کا دوست  تھا ،ا س لئے آپس میں  کوئی  خاص شرائط    طے  نہیں   ہوئی تھیں  ،  کافی  عرصہ  پہلےجب   دادا کا   انتقال     ہوا تواس وقت   ہمارے ابو   اور چاچو   اور  ہماری ایک پھوپی حیات  تھیں  ،یعنی داد  ورثاء دولڑکے   اور ایک لڑکی  ہیں ،  اس کے  بعد جب ہمارے   ابو  کا نتقال  ہوا   تو   چاچو    داد اکے مکان سے  میراث  مانگ رہے تھے ، داد اکے ترکے  میں  صرف ایک مکان ہی تھا ، اس کے علاوہ  اور کچھ نہیں تھا ،تو ہم نے مکان   کی قیمت  لگوائی   تو    7 لاکھ  روپے لگی ، تو   ہم نے چاچو  کو ڈیڑھ  لاکھ رپے دیکر   وراثت سے   دست برداری  کا ایگریمنٹ  کرلیا، لیکن مکان نہیں بیچا ،اب ایک مہینہ    پہلے اس کو بیچا تو   صرف   ایک لاکھ اسی ہزار   میں فروخت   ہو ااور  یہ رقم ہمیں مل بھی گئی ،مکان کی   قیمت کم ہونے کی  وجہ   اس مکان کا خستہ حال  ہونا  ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ    ڈیڑھ لاکھ روپے  جو    ہم نے چاچو  کو  دیا   تھا   وہ  ہمیں واپس ملیں گے یا نہیں ؟

اب جو  پیسے  ملیں  ہیں   وہ  ہمارے  ابو اور  پھو پھو  کے درمیان   کس طرح تقسیم ہونگے؟ اور  ابو کا حصہ   ہم سب میں  کیسے تقسیم ہوگا ؟  ہم ٹوٹل  5 ہیں ، امی ، 3 بہنیں  اور ایک  بھائی ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 واضح ہوکہ پگڑی   پر دکان یا  مکان کرایہ پر لینا  دینا جائز نہیں  ، کیونکہ  اس میں سود کا عنصر  شامل ہوتا ہے،اگر  کسی  نے پگڑی  پر مکان  لے لیا   تو اس کا حکم  یہ ہے کہ   مالک کو مکان  واپس کرکے اپنی   ادا کردہ رقم وصول کرلے ۔ 

صورت مسئولہ  میں اصل مالک  سے کیا  معاملات  طےہوئے  تھے ، آپ کے علم  میں  نہیں  ہے،  تاہم  موت  کے وقت  مکان داداکی ملکیت  میں  تھا ،  اس لئے یہ مکان  ورثاء  میں تقسیم ہوناتھا ، ،اور مرحوم  کے انتقال  کے  وقت  جو  ورثاء زندہ  تھے،  اس  مکان میں ان  سب کاحق   ہے،لیکن  اس وقت  مکان تقسیم نہیں  ہوا، پھر مرحوم  کے بڑے بیٹا  آپ کے والد کے انتقال کےبعد  مکان  کی موجودہ قیمت  7لاکھ  لگوا کر مرحوم کے  ایک  بیٹے  سے صلح  ہوگئی ،   بقیہ  مکان  ایک بیٹا اور  بیٹی  کے لئے رکھا  گیا،تو میراث  کی اصطلاح میں  اس طرح  صلح کرنے  کو  تخارج کہاجاتا  ہے ،اس میں  اور کوئی  خرابی  نہ ہوتو  شرعا  جائز ہے ، لہذا  صلح  کا معاملہ  جائز ہوا، اس کے بعد  اب  مکان  فروخت  ہو ا، ایک  لاکھ اسی ہزار  میں ،لہذا اس رقم  میں سے ایک  لاکھ پچاس  ہزاراس بندے کو دیا  جائے  جس نے یہ رقم ادا  کی تھی ، اس  کے بعد  بقایا   کو مساوی  تین حصوں میں تقسیم کرکے اس میں سے  دوحصے مرحوم  کے بڑے بیٹے  یعنی  آپ کے  والد  کے حصے میں آئیں  گے ،اور  ایک حصہ   آپ  کی پھوپھی  کا ہوگا۔

آپ  کے والد مرحوم  کے ترکے کی تقسیم  کا طریقہ یہ ہے کہ

مرحوم کے انتقال  کے وقت  ان کی  ملک  میں منقولہ غیر منقولہ جائداد ،سونا چاندی ،نقدی اور   چھوٹا بڑا   جو بھی سامان  تھا ،اس میں  اپنے والد کی  میراث  سے ملا ہوا حصہ شامل کیاجائے ، یہ سب مرحوم کا ترکہ  ہے ، اس میں سے  پہلے  کفن دفن کامتوسط  خرچہ نکالاجائے ،اس کے بعد  مرحوم  کے ذمے  کسی کا قرض  ہو  تو  کل مال سے  اس کو ادا  کیاجائے  ،اسکے بعد اگر مرحوم نے کسی  غیرواث  کے لئے کوئی جائز وصیت کی ہو   تو تہائی مال کی حد تک اس پر عمل کیاجائے ، اس کے بعد  مال  کو  مساوی  40حصوں میں تقسیم کرکے  بیوہ  کو  5 حصے ،اور لڑکے کو   14 حصے  ، اور  تینوں  لڑکیوں میں  سے ہرایک  کو  سات ، سات حصے دئے جائیں  گے۔

حوالہ جات
{فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ} [النساء: 12]
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 642)
(أخرجت الورثة أحدهم عن) التركة وهي (عرض أو) هي (عقار بمال) أعطاه له (أو) أخرجوه (عن) تركة هي (ذهب بفضة) دفعوها له (أو) على العكس أو عن نقدين بهما (صح) في الكل صرفا للجنس بخلاف جنسه (قل) ما أعطوه (أو كثر) لكن بشرط التقابض فيما هو صرف (وفي) إخراجه عن (نقدين) وغيرها بأحد النقدين لا يصح (إلا أن يكون ما أعطي له أكثر من حصته من ذلك الجنس) تحرزا عن الربا، ولا بد من حضور النقدين عند الصلح وعلمه بقدر نصيبه شرنبلالية وجلالية ولو بعرض جاز مطلقا لعدم الربا، وكذا لو أنكروا إرثه لأنه حينئذ ليس ببدل بل لقطع المنازعة.

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

١۵ ربیع الثانی ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے