021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سٹی گروپ آف کمپنیز میں ممبر بننے کاحکم
80851شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

ایک کمپنی  ہے ،)سٹی  گروپ آف کمپنیز (کے نام  سے کام کررہی   ہے ، اس  میں  انویسمنٹ  کرنے پر  جمع  کردہ رقم کی   کم وزیادہ  مقدارکےحساب سے   8سے 12 فیصد  ماہانہ   متعین   نفع ملتا   ہے ،   یہ  تو متعین نفع ہوا   جوکہ  ناجائز  ہے ، میں نے اس کمپنی کے  ذمہ داران   سے بات کی  کہ آپ کاطریقہ  متعین   نفع  دینے کا   ہے جو  کہ شرعا   ناجائز ہے ،انہوں  نے بتایا  کہ ہمارا طریقہ   کار یہ ہے کہ  ہم انویسمنٹ  شدہ  رقم  کو  کسی  پروڈکٹ    میں لگادیتے  ہیں  ،پھر ماہانہ   بنیاد  پرسرمایہ  کوالگ  کرکے  منافع کاحساب  لگاتے ہیں ، تو منافع   کبھی   36 فیصد  آتا  ہے ،کبھی  24 فیصد آتا ہے ، ہم اس   منافع کے 3حصے کرتے ہیں،  ایک حصہ کمپنی کا ہوتا ہے ،اور ایک حصہ   انویسٹر کاہوتا ہے ،اور ایک حصہ ہم محفوظ کرتے ہیں ،پھر جو نقصان  ہوتا   ہے اس محفوظ کر دہ   رقم سے اس کا ازالہ کرتے ہیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سائل  کی یہ بات درست ہے کہ کسی  کاروبار میں سرمایہ لگانے پرسرمایہ کے تناسب سے  متعین  نفع دینا سود کے حکم  میں داخل  ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے، لہذااگر مسئولہ صورت میں جمع  کردہ  رقم کا فیصد  بطور نفع طئے  کیاجاتا ہے  تو  یہ طریقہ کاروبار  ناجائز ہے ،جائز   طریقہ یہ ہے کہ  حاصل  ہونے والے  نفع کا   کوئی   فیصد طئے  کیاجائے ۔

باقی سوال میں  ذکر کردہ   طریقہ  پر کسی کمپنی  میں سرمایہ  کاری  ،  مضاربت کے زمرے میں آتی  ہے اورمضاربت  کے جوازکی بنیادی  شرائط یہ ہیں 1۔  کہ  رقم مضارب کے حوالے  کردی جائے  2  ۔رب المال ﴿سرمایہ دینےوالے﴾ خود کاروبار کی عملی سرگرمیوں میں  شریک ہونے کی شرط  نہ لگائے3۔ حاصل  ہونے والے  نفع میں دونوں  کی  شرکت   فیصدی طریقہ پر ہونفع کی کوئی  خاص مقدار کسی کے لئے  مخصوص نہ ہو 4۔ اگر نقصان  ہوجائےتو دیکھا جائے  اس سے پہلے اس تجار  ت میں اگرکوئی  نفع  حاصل ہوا  ہوتو  نقصان کی تلافی  اس سے کی جائے گی، اگر  ابھی نفع نہیں ہوا یا نفع سے تلافی  نہیں  ہو پارہی    تو  نقصان   رب المال یعنی  سرمایہ  فراہم  والے کے ذمہ  ہوگا۔

اورکسی نئی  کمپنی میں مضاربت  یاشرکت  جائز ہونے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے  کہ یہ  کمپنی گورنمنٹ  کا ادارہ  ﴿ ایس ،ای،سی ،پی ﴾سے باقاعدہ  منظور شدہ  بھی ہو تاکہ معاملہ  دھوکے فراڈ  جعلی نہ ہو اوریہ کہ ادارے  میں کوئی  شرعی ایڈوائزر  بھی موجود  ہو  تاکہ کا روبار جائز  طریقہ  پر  ہونے اور نفع شرعی طریقہ  پر  تقسیم ہونے  کی نگرانی  ہوسکے

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 200)
قال: "المضاربة عقد على الشركة بمال من أحد الجانبين" ومراده الشركة في الربح وهو يستحق بالمال من أحد الجانبين "والعمل من الجانب الآخر" ولا مضاربة بدونها؛ ألا ترى أن الربح لو شرط كله لرب المال كان بضاعة، ولو شرط جميعه للمضارب كان قرضا.الی قولہ ۰۰۰قال: "ولا بد أن يكون المال مسلما إلى المضارب ولا يد لرب المال فيه" لأن المال أمانة في يده فلا بد من التسليم إليه، وهذا بخلاف الشركة لأن المال في المضاربة من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر، فلا بد من أن يخلص المال للعامل ليتمكن من التصرف فيه.
الی قولہ ۰۰۰قال: "ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة" من الربح لأن شرط ذلك يقطع الشركة بينهما ولا بد منها كما في عقد الشركة.    

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید    کراچی

١١ محرم الحرام  ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے