021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دار الکفر میں بد فعلی کے مرتکب کی سزا
82293حدود و تعزیرات کا بیانتعزیر مالی کے احکام

سوال

ملک  برما  ایک کافر ملک  ہے ،یعنی  اس ملک میں  کافروں کی  حکومت  قائم  ہے ، یہاں کچھ  مسلمان  بھی  آباد  ہیں ،  اس میں  ایک واقعہ پیش آیا  ہے کہ     قرآنی  مکتب کے   دواساتذہ     کے بارے میں   یہ بات   معلوم ہوئی  ہے   کہ انہوں نے  دو نابالغ  بچوں  کے ساتھ زیادتی  کی ہے ،  یعنی  بد فعلی کی ہے ،   اگر  یہ الزام  ان دونوں  کے اقرار  سے یا  شرعی گواہوں کی گواہی سے ثابت  ہوجائے  تو  شرعا  انکی کیا سزا ہونگی ؟  اور دارالکفر میں    سزاء  دینے کی کیا  صورت  ہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بدفعلی کرنا خواہ کسی انسان کے ساتھ ہو ،یا جانور کے  ساتھ حتی  کہ اپنی بیوی  کے ساتھ ہو ،بہت  ہی قبیح  اورشنیع فعل ہے اللہ تعالی  کو بہت  ہی ناپسند ہے،رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے ایسے  شخص پر  سخت ناراضگی   کااظہار فرمایا ،  اس کو ملعون  قرار دیا ،  آپ نےاپنی امت کے لئے  اس  بات کا   اندیشہ  ظاہر  فرمایا  کہ کہیں     ایسا   نہ ہوکہ میری امت میں بھی قوم لوط والے عمل کا ارتکاب پایا  جائے اور قوم لوط کی  طرح میری امت بھی عذا ب سے ہلاک  ہوجائے ۔

البتہ شریعت نے  زناکاری  کی طرح اس بدکاری،بد فعلی   پر کوئی  متعین حد مقرر  نہیں  کی ہے ،بلکہ ایسے شخص کو  سزا  دینا اسلامی عدالت  اور  قاضی کے ذمے لگایا ہے کہ وہ  بدفعلی  کرنے والے کی فعل کی نوعیت  کو دیکھ کر  اپنی صوابدید  کے  مطابق  کوئی سزاجاری کرے ،وہ سزا   حد زنا  سے بڑی بھی ہوسکتی ہے ،کہ  اس شخص  کو ، قتل  کردیاجائے ،ملک  بدری کی جائے وغیرہ ۔

 صورت مسئولہ  چونکہ   ملک برما  دار الکفر ہے ،اوروہاں پر شرعی  عدالت موجود  نہیں ہے ، اس لئے اسلامی عدالت میں  شرعی  گواہوں  کی  گواہی  سے اس الزام کو  ثابت کرنا مشکل ہے ،لہذااورعدالت کی طرف سے  شرعی تعزیر بھی نہیں  ہوسکتی ہے ،اس صورت حال میں اس مسئلہ کاحل  یہ  ہوسکتا  ہے  کہ اگر  وہاں برما میں  مسلمانوں کی کوئی باختیار  جماعت موجود  ہو تو اس معاملے کو جماعت  المسلمینکی پنچائیت کے سا منے  پیش  کیا  جائے پھر وہ معاملہ کی تحقیق  کرے  الزام  ثابت ہونے  پرکوئی  مناسب تعزیری  سزا  جاری کرے ۔ اگر ایسی  جماعت  نہیں  ہے تو  طرفین  کو   توبہ  استغفار  کی تلقین کی جائے  اور معاملے  کو رفع دفع  کردیاجائے ۔

حوالہ جات
بدفعلی کرنا خواہ کسی انسان کے ساتھ ہو ،یا جانور کے  ساتھ حتی  کہ اپنی بیوی  کے ساتھ ہو ،بہت  ہی قبیح  اورشنیع فعل ہے اللہ تعالی  کو بہت  ہی ناپسند ہے،رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے ایسے  شخص پر  سخت ناراضگی   کااظہار فرمایا ،  اس کو ملعون  قرار دیا ،  آپ نےاپنی امت کے لئے  اس  بات کا   اندیشہ  ظاہر  فرمایا  کہ کہیں     ایسا   نہ ہوکہ میری امت میں بھی قوم لوط والے عمل کا ارتکاب پایا  جائے اور قوم لوط کی  طرح میری امت بھی عذا ب سے ہلاک  ہوجائے ۔
البتہ شریعت نے  زناکاری  کی طرح اس بدکاری،بد فعلی   پر کوئی  متعین حد مقرر  نہیں  کی ہے ،بلکہ ایسے شخص کو  سزا  دینا اسلامی عدالت  اور  قاضی کے ذمے لگایا ہے کہ وہ  بدفعلی  کرنے والے کی فعل کی نوعیت  کو دیکھ کر  اپنی صوابدید  کے  مطابق  کوئی سزاجاری کرے ،وہ سزا   حد زنا  سے بڑی بھی ہوسکتی ہے ،کہ  اس شخص  کو ، قتل  کردیاجائے ،ملک  بدری کی جائے وغیرہ ۔
 صورت مسئولہ  چونکہ   ملک برما  دار الکفر ہے ،اوروہاں پر شرعی  عدالت موجود  نہیں ہے ، اس لئے اسلامی عدالت میں  شرعی  گواہوں  کی  گواہی  سے اس الزام کو  ثابت کرنا مشکل ہے ،لہذااورعدالت کی طرف سے  شرعی تعزیر بھی نہیں  ہوسکتی ہے ،اس صورت حال میں اس مسئلہ کاحل  یہ  ہوسکتا  ہے  کہ اگر  وہاں برما میں  مسلمانوں کی کوئی باختیار  جماعت موجود  ہو تو اس معاملے کو جماعت  المسلمینکی پنچائیت کے سا منے  پیش  کیا  جائے پھر وہ معاملہ کی تحقیق  کرے  الزام  ثابت ہونے  پرکوئی  مناسب تعزیری  سزا  جاری کرے ۔ اگر ایسی  جماعت  نہیں  ہے تو  طرفین  کو   توبہ  استغفار  کی تلقین کی جائے  اور معاملے  کو رفع دفع  کردیاجائے ۔

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

١۴ جمادی الثانیہ  ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے