81231 | طلاق کے احکام | الفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان |
سوال
مسئلہ یہ ہے کہ مرحوم شکیل کی بیٹی ستارہ شکیل جس کی عمر آٹھ سال کی ہے ، ماں بیٹی دونوں ایک ساتھ نانا کے گھر میں رہتے ہیں ، اور 13 فروری 2022ء میں محترم سنیر سول جج نےمرحوم کی پراپرٹی ، جائدادیں ، تحفے تحائف کے سلسلے میں تحریری حکم نامہ جاری فرمایا اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ بچی کی پرورش کرناسن بلوغت تک ماں کی ذمے داری ہوگی ، اب بچی کے چچا ؤں کا دعوی ہے کہ بچی ہماری پرورش میں رہے گی ، محترم مفتی صاحب رہنمائی فرمائیں کہ شریعت کے اصولوں کے مطابق بچی اپنی ماں کے پاس رہے گی یا چچا کے پاس ؟ کیا شرعا بچی کو اختیار ہے کہ وہ جس کے ساتھ رہنا چا ہے رہ سکتی ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر ماں باپ میں جدائی ہوجائے توبچی کی عمر 9سال پوری ہونے تک حق پرورش ماں کا ہوتا ہے ، اس کے بعد باپ کاحق ہوتا ہے ﴿ باپ کی عدم موجو دگی میں دادا ،چچا وغیرہ ﴾کو اپنی پرورش میں لینے کاحق ہوتا ، اور بلوغت کے بعد بچی کو ماں یا باپ میں سے کسی ایک کے پاس رہنے کاحق ہوتا ہے ،
مسئولہ صورت میں چونکہ والد وفات پاچکے ہیں ، اس لئے بچی کی عمر 9سال پوری ہونے تک بچی کے پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے ، اس کے بعد شرعی ضابطے کے مطابق اگر چہ چچاؤں کا حق بنتا ہے ،لیکن اگر بچی سمجھدار ہے وہ اپنی خوشی سے ماں کے پاس ہی رہنا چاہے ، اور ماں کے پاس رہنے میں اپنے کو محفوظ سمجھتی ہو چچا کے گھر رہنے میں اپنے کو غیر محفوظ سمجھیں ۔اور عدالت نے بھی فیصلہ سنایا ہے کہ بلوغ تک حق پرورش ماں کے ذمے ہے ، اس صوت حال میں بچی کو ماں کے پاس رہنے دیاجائے گا ،چچاؤں کو چاہئے کہ بچی ماں چھین کر اپنے پاس رکھنے پر مجبور نہ کریں ۔
البتہ بوقت ضرورت بچی کے ساتھ تعاون جاری رکھیں ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 566)
(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.
وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى.
الی قولہ ۰۰۰ وأفاده بقوله (بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرا ضمها الأب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن واجتمع لها رأي فتسكن حيث أحبت حيث لا خوف عليها (وإن ثيبا لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونة على نفسها) فللأب والجد ولاية الضم لا لغيرهما كما في الابتداء بحر عن الظهيرية
قوله: وأفاده) أي أفاد ما ذكر من ثبوت التخيير والانفراد للبالغ مع زيادة تفصيل وتقييد لذلك فافهم. (قوله: مبلغ النساء) أي بما تبلغ به النساء من الحيض ونحوه، ولو حذفه لكان أوضح. (قوله: ضمها الأب إلى نفسه) أي وإن لم يخف عليها الفساد لو حديثة السن بحر، والأب غير قيد، فإن الأخ والعم كذلك عند فقد الأب ما لم يخف عليها منهما
احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
١۰ صفر ١۴۴۵ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | احسان اللہ شائق | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |