021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سرمایہ حاصل کرنے کے لئے مہنگی چیز ادھاری خرید کر ،نقدی سستی بیچنا
53269-Aخرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

(الف)بعض اوقات جب کاروباری ضروریات پوری کرنے کے لئےفوری رقم ضرورت ہوتی ہےاوراتنا زیادہ قرضہ حسنہ بھی کوئی نہیں دیتا توکاروباری حضرات رقم حاصل کرنے کے لئےایک حیلہ اختیار کرتے ہیں ۔وہ یہ کہ کوئی چیز ،مثلا:غلہ وغیرہ ادھار زیادہ قیمت پر خرید کر نقد کم قیمت پر بیچتے ہیں اور اس حیلے کا مقصد سود سے بچنا ہوتا ہے۔ (ب)بعض کاروباری حضرات نے تو سرمایہ بڑھانے کا یہی واحد طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ سود پرتو رقم نہیں دیتے ،لیکن قرض مانگنے والے کو کوئی چیز ادھار پرمہنگے داموں بیچ کر خوب سرمایہ حاصل کر لیتے ہیں اور یہ حضرات ادھار لین دین کی جو شرعی شرائط ہیں، ان کا بھی خیال کرتے ہیں ۔کیا ایسا کرنا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(الف)کسی سے ادھار پر زیادہ قیمت کےساتھ کوئی چیزخریدکرنقدکم قیمت پر اس کے علاوہ کسی کو بیچی جائےتو یہ جائز ہے،جبکہ ادھار لین دین کی دیگرشرائط ،مثلا:ادھار کی مدت اور ادھار پر قیمت بھی پہلے سے طے ہو۔لیکن سرمایہ حاصل کرنے کا یہ طریقہ نا پسندیدہ ہے کیونکہ یہ تجارت کے مقصد کے خلاف ہے ،تجارت میں نفع کمایا جاتا ہے جبکہ اس سودے میں مشتری مجبورا ایسا معاملہ کرتا ہے جس میں اس کا نقصان ہے،مہنگے داموں اشیاء خرید کر سستے داموں فروخت کرتا ہے۔ (ب)سرمایہ حاصل کرنے کے لئےادھار سامان نقدی کے مقابلے زیادہ قیمت پر بیچناجائز ہے ۔البتہ خریدار کو بھی اپنا بھائی سمجھتے ہوئے بہت زیادہ نفع نہیں لینا چاہئے۔

حوالہ جات
قال العلامة المرغيناني رحمه الله تعالى: "قال: "ويجوز البيع بثمن حال ومؤجل إذا كان الأجل معلوما" لإطلاق قوله تعالى: {وأحل الله البيع وحرم الربا} [البقرة:275] وعنه عليه الصلاة والسلام "أنه اشترى من يهودي طعاما إلى أجل معلوم ورهنه درعه". ولا بد أن يكون الأجل معلوما؛ لأن الجهالة فيه مانعة من التسليم الواجب بالعقد، فهذا يطالبه به في قريب المدة، وهذا يسلمه في بعيدها." (ج:3،ص:24، دار احياء التراث العربي - بيروت – لبنان) وفي الشاميه: "ثم قال في الفتح ما حاصله: إن الذي يقع في قلبي أنه إن فعلت صورة يعود فيها إلى البائع جميع ما أخرجه أو بعضه كعود الثوب إليه في الصورة المارة وكعود الخمسة في صورة إقراض الخمسة عشر فيكره يعني تحريما، فإن لم يعد كما إذا باعه المديون في السوق فلا كراهة فيه بل خلاف الأولى، فإن الأجل قابله قسط من الثمن، والقرض غير واجب عليه دائما بل هو مندوب وما لم ترجع إليه العين التي خرجت منه لا يسمى بيع العينة؛ لأنه من العين المسترجعة لا العين مطلقا وإلا فكل بيع بيع العينة اهـ، وأقره في البحر والنهر والشرنبلالية وهو ظاهر، وجعله السيد أبو السعود محمل قول أبي يوسف، وحمل قول محمد والحديث على صورة العود." (ج:5،ص:326،دار الفكر-بيروت) وفي البحر: "لأن للأجل شبها بالمبيع ألا ترى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل، والشبهة في هذا ملحقة بالحقيقة. " (ج:6،ص:124 ،دار الكتاب الإسلامي) وفي سنن الترمذي: " حدثنا هناد حدثنا عبدة بن سليمان عن محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة وفي الباب عن عبد الله بن عمرو وابن عمر وابن مسعود قال أبو عيسى حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح والعمل على هذا عند أهل العلم وقد فسر بعض أهل العلم قالوا بيعتين في بيعة أن يقول أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين ولا يفارقه على أحد البيعين فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على أحد منهما......." (ج:3،ص:221،دار الفكر221)

سمیع اللہ داؤد :معاملات

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

05/03/1436

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے