021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیر اجازت بنائے گئے مکان میں شرکت کا حکم
53601شرکت کے مسائلمشترک چیزوں سے انتفاع کے مسائل

سوال

زید نے بغیر اجازت خالد کی زمین میں مکان تعمیر کر لیا۔بعد میں زید اور خالد نےاس پر شرکت کا معاہدہ کر لیا اور یہ طے پایا کہ اس مکان کو کرایہ پر دے دیتے ہیں اور اس سے جوآمدنی حاصل ہو گی وہ ہمارے درمیا ن نصف نصف ہوگی۔اس طرح کا معاہدہ کرنا درست ہے؟اور یہ شرکت کی کونسی قسم ہو گی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

احناف کے اصل مذہب کے مطابق عروض میں شرکت جائز نہیں ہے،البتہ اگر ہر شریک اپنا نصف حصہ دوسرے کو بیچ دے یا عروض ایک دوسرےکے ساتھ خلط کر لیں یا خلط ہو جائیں اور ان کو علیحدہ کرنا ناممکن یا مشکل ہو جائے، تو اس صورت میں فقہاء کے نزدیک عروض میں شرکت درست ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عروض کی شرکت میں ربح ما لم یضمن لازم آتا ہے ،اس طرح کہ عروض متعین ہوتے ہیں اور ہر شریک کے عروض اسی کی ملکیت اور ضمان میں ہوتے ہیں ۔ایسی صورت میں جب ایک شریک عروض کے ذریعے کوئی نفع کماتا ہے اور دوسرے شریک کو نفع میں شامل کرتا ہے تو یہ اس دوسرے شریک کے لئے ربح ما لم یضمن ہو تا ہے،جو جائز نہیں ہے۔البتہ اگر مذکورہ بالا طریقوں میں سے کسی کے ذریعے شرکت ہو تو یہ خرابی لازم نہیں آتی۔ اب صورت مسئولہ میں چونکہ اموال خلط ہونے کے بعد شرکاء نے اپنے اپنے حصہ میں سےنصف دوسرے کو بیچا نہیں ہے ،لہذا یہ شرکت ،شرکت عقد نہیں کہلا ئے گی ،بلکہ شرکت ملک ہو گی ۔جب یہ شرکت ملک ہے تو نفع میں نصف نصف کا معاہدہ درست نہیں ،بلکہ حاصل شدہ نفع دونوں شریکوں میں ملکیت کے تناسب سے تقسیم ہو گا۔جس کو معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ مکان بننےسے پہلےزمین کی جو مالیت تھی ،مکان بننے سے اس میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔مثلا،مکان بننے سے پہلے زمین کی مالیت ایک لاکھ تھی اور مکان بننے کے بعد ڈیڑھ لاکھ ہو گئی۔اب جتنا اضافہ ہو ا ہے یعنی پچاس ہزارروپےجوکہ کل مالیت کا تیسرا حصہ بنتاہے تو اسی کے بقدر مکان والا کل مالیت میں شریک ہےاور اسی کے بقدر اس کو کرایہ میں سے نفع ملے گا۔

حوالہ جات
قال في تبيين الحقائق: "واعلم أن الشركة على ضربين شركة ملك وشركة عقد على ما نبين في أثناء البحث قال - رحمه الله - (شركة الملك أن يملك اثنان عينا إرثا أو شراء) وكذا استيلاء أو اتهابا أو ووصية أو اختلاط مال بغير صنع أو بصنعهما بحيث لا يتميز أو يعسر." (ج: 3,ص: 313,المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة) وفي البحر الرائق: "(قوله : ولو باع كل عرضه بنصف عرض الآخر وعقدا الشركة صح ) بيان للحيلة في صحة الشركة بالعروض فإن فساده بها ليس لذاتها ، بل للازم الباطل من أمرين أحدهما لزوم ربح ما لم يضمن ، والثاني جهالة رأس مال كل منهما عند القسمة وكل منهما منتف في هذه الصورة فيكون كل ما يربحه الآخر ربح ما هو مضمون عليه ولا تحصل جهالة في رأس مال كل منهما عند القسمة حتى يكون ذلك بالحرز فتقع الجهالة ؛ لأنهما مستويان في المال شريكان فيه فبالضرورة يكون كل ما يحصل بينهما نصفان وفي قوله وعقدا الشركة إشارة إلى أن بالبيع صارت شركة ملك حتى لا يجوز لكل واحد أن يتصرف في نصيب الآخر ، ثم بالعقد بعده صارت شركة عقد فيجوز لكل منهما أن يتصرف في نصيب صاحبه ، كذا في التبيين وصرح في الهداية بأن هذا شركة ملك." (ج:11,ص:484,دار الكتب العلمية بيروت- لبنان) وفي درر الحكام: و (بالعروض) لكن (بعد بيع كل) من المشركين (نصف عرضه بنصف عرض الآخر) يعني لو باع كل منهما نصف ماله من العرض بنصف مال الآخر منه صارا شريكين في الثمن شركة ملك." (ج:2,ص:321,دار إحياء الكتب العربية)

سمیع اللہ داؤد :معاملات

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

15/05/1436

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے