021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وکیل بالشراء کاموکل کونفع رکھ کرقیمت بتانا
55687-Aخرید و فروخت کے احکامبیع کی مختلف اقسام ، بیع وفا، بیع عینہ اور بیع استجرار کا بیان

سوال

میراایک دوست ضلع خوشاب میں ایک جگہ سرکاری ملازمت کررہاتھا،سرکاری کام کے سلسلے میں کچھ دنوں کے لئے انہیں پشاورآناپڑا،خوشاب سے آتےہوئے ایک اوردوست نے فرمائش کی کہ آپ پشاورسے میرے لئے تھرموس اوراستری وغیرہ خرید کرلے آؤ،پشاورسے واپسی پر وہ یہ چیزیں خریدکرلے گیااور اس دوست کودے دیں ،پھر اس نے پوچھاکہ آپ یہ کتنےکی خریدکرلائےہو؟تولانےوالےدوست نےاصل قیمت سے سوروپے زیادہ بتائے اورپیسے لے لئے اوریہ خیال کیاکہ یہ میری کمائی ہے ۔ یہ دونوں دوست ایسے تھے کہ سرکاری دفترمیں تھے ،اب ریٹائر منٹ ہونے کے بعدمیرے دوست کے ذھن میں یہ درج ذیل سوالات آئے : (1)کیایہ اضافی پیسے بطورکمائی لیناٹھیک تھا،جبکہ دینے والے کوبتایابھی نہیں کہ میں اضافی کمائی لے رہاہوں ۔ (2)اگرٹھیک نہیں تھا توپھرو اپس کیسے ہوسکتے ہیں ؟کیونکہ وہ شخص بہت پہلے ریٹائرڈہواہے اور اس کے گھر کاپتہ،فون وغیرہ بھی میرے پاس نہیں ہے ۔ (3)اس آدمی کی جانب سے خیرات یاصدقہ میں بھی نہیں دیاجاسکتا،کیونکہ وہ اہل تشیع میں سے تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

استری لانے والاشخص دوسرے دوست کی طرف سے (جس نے مذکورہ چیزیں لانے کاکہاتھا) مذکورہ چیزیں خریدنے کاوکیل تھااوروکیل امین ہوتاہے یعنی جتنےروپے کی اس نے یہ چیزیں خریدی تھیں ان کی اصل قیمت اپنے موکل کوبتاکراتنی ہی قیمت لینے کاحق دارتھا،اس سے زیادہ لینا اس کے لئے جائز نہیں تھا،لہذاجتنی رقم اس نے اضافی لی ہے وہ مالک کوواپس کرناضروری ہے ۔ اگرانتہائی کوشش کے بعدبھی مالک کاعلم نہ ہوسکے تو اس صورت میں اصل حکم تو یہ ہے کہ اضافی رقم بیت المال میں جمع کرائے ،مگر چونکہ حکومت اسلامیہ نہ ہونے کی وجہ سے بیت المال مفقود ہے،اس لئے کسی غریب کودیدیں ،اس طرح کرنے سے آپ بری ہوجائیں گے ،تاہم اگرصدقہ کرنے کے بعدمالک کاعلم ہوجائے اوراس واقعہ کے علم ہونے پر وہ اپنی رقم کی واپسی کامطالبہ کرے تو اس کواتنی رقم واپس کرناضروری ہے ۔

حوالہ جات
(ملخص احسن الفتاوی:6 /389 ) رد المحتار (ج 2 / ص 317): "المغصوب إن علمت أصحابه أو ورثتهم وجب رده عليهم، وإلا وجب التصدق به. " رد المحتار (ج 26 / ص 453): " لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة ، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم ، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه ." الفتاوى الهندية (ج 22 / ص 443): "رجل مات وكسبه من الحرام ينبغي للورثة أن يتعرفوا فإن عرفوا أربابها ردوا عليهم ، وإن لم يعرفوا تصدقوا به كذا في فتاوى قاضي خان ."

محمد اویس بن مولاناعبدالکریم

دارالافتاء جامعۃ الرشید

2/09/1437

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

فیصل احمد صاحب / مفتی محمد صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے