021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کی شرط کے وقوع میں اختلاف
56161 طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

شوہر کہتا ہےکہ اگر تو میری اجازت کے بغیرماموں،نانی یا کزن سے ملی تو تجھے ایک طلاق ،جبکہ بیوی کہتی ہےمیرے شوہر نے مجھے کہا اگر تو میری اجازت کے بغیرماموں،نانی یا کزن سے ملی تو تجھے تین طلاق ۔ شوہر کہتاہےکہ میری بیوی عید کے تیسرے دن دوپہر کے وقت میری اجازت سے اپنے گھر جا کر مذکورہ رشتہ داروں سے ملی ہے،جبکہ بیوی کہتی ہے کہ یہ الفاظ میرے شوہر نے عید کے 5 ویں دن مغرب کے بعد کہے ہیں اور وہ عید کے چھٹے دن صبح سویرے شوہر سے اجازت لیےبغیر گھر گئی ہے(عید کے چھٹے دن جانے پر بیوی کے پا س گواہ موجود ہیں) ۔ اب آپ حضرات سے پوچھنا یہ ہےکہ اگر بیوی سوچ سمجھ کر یقین کے ساتھ کہتی ہے کہ میں نے اپنے شوہر سے یہی الفاظ سنے ہیں تو شریعت میں بیوی کے لیے کیا حکم ہے؟ کیا اس معاملے میں مصالحت کی کوشش کرنے والے افراد واقعی گنہگار ہوں گے؟ جیساکہ ہمارے ہاں ایک مفتی صاحب فرماتے ہیں۔ مزید یہ کہ کیا بیوی عدالت سے تنسیخ نکاح کروا سکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سب سے پہلے تو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ طلاق ہو جانے کے بعد بیوی ،شوہر پر حرام ہو جاتی ہے۔اس کے بعد شوہر کا اس کے ساتھ کسی قسم کا تعلق رکھنا جائز نہیں ہوتا،اس لیےاگر طلاق دینے کے بعدشوہر جھوٹ بول کریا طلاق سے انکار کر کے بیوی کے ساتھ رہتاہے تودونوں زنا کے مرتکب ہوں گے۔ اسی طرح اگر طلاق نہیں ہوئی اور بیوی جھوٹ بول کر طلاق کا دعوی اور علیحدگی چاہتی ہےتو یہ بھی ناجائز اور خلاف شریعت ہے۔ اس صورت میں عورت آگے دوسرا نکاح بھی نہیں کر سکتی،لہذا بیوی اور شوہرکو چاہیے کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے ،واقعے کی حقیقت بیان کریں اورجو بھی حقیقت کے خلاف دعوی کر رہا ہے، اس کو چاہیے کہ اپنے غلط دعوی سے باز رہے۔ باقی اصول کے مطابق اس صورت میں شوہر کی بات مانی جائے گی اور بیوی پر کوئی بھی طلاق واقع نہیں ہوگی ۔اس لیے کہ اگر شوہر اور بیوی کے درمیان طلاق واقع ہونے میں اختلاف ہو جائے یاطلاق کسی شرط کے ساتھ معلق کی ہو اور اس شرط کے واقع ہونے میں اختلاف ہو جائےاور بیوی کے پاس اپنے دعوی پر گواہ موجود نہ ہوں تو اس صورت میں شوہر کی بات مانی جاتی ہے۔ جواب کی مزید وضاحت یہ ہے کہ موجودہ صورت میں بیوی اور شوہر کے درمیان دو باتوں میں اختلاف ہے؛پہلی یہ کہ شرط پوری ہونے کی صورت میں ایک طلاق ہوگی یا تین؟دوسری یہ کہ شرط پوری بھی ہوئی ہے یا نہیں؟ اب دیکھا جائے تو بیوی کے پاس پہلی بات پر تو بالکل گواہ موجود ہی نہیں اور دوسری بات کے متعلق بھی گواہی معتبر نہیں کیونکہ شوہر نے طلاق کو اس شرط کے ساتھ معلق کیا تھا کہ بیوی اس کی اجازت کے بغیر مذکورہ رشتہ داروں سے ملے(جبکہ سوال میں مذکور گواہی میں اس بات کا ذکر ہی نہیں کہ بیوی ،شوہر کی اجازت سے گئی یا بغیر اجازت)،لہذا اس صورت میں شوہر کی بات مانی جائے گی ۔ البتہ اگر بیوی کوپھر بھی تین طلاقوں کی بات اور پھر شرط کے واقع ہوجانے کا یقین ہے ،توبیوی کو چاہیے کہ فورا شوہر سے علیحدہ ہوجائے،اس کے لیے جائز نہیں کہ اب شوہر کے ساتھ رہے،نہ اس کے گھر والوں کے لیے جائز ہےکہ وہ اس کو شوہر کے گھر بھیجیں۔ بیوی کو چاہیے کہ وہ عدالت سے رجوع کرے اور عدالت میں اپنے دعوی کو ثابت کرے،یا شوہر کو کسی طرح راضی کرے کہ وہ اس کو طلاق دے کر فارغ کردے ۔اگر عدالت نے طلاق کے ثابت ہوجانے کا فیصلہ کیا تو یہ فیصلہ شرعا بھی درست ہوگا۔ اس مسئلہ میں شرعی لحاظ سے مصلحت کی صورت یہی ہے جو ماقبل میں ذکر کی گئی ہے۔ اس مصلحت کے لیے کوشش کرنا درست ہے،لیکن یہ کوشش کرنا کہ میاں بیوی ایک ساتھ رہیں اور اس کو مصلحت کہنا،درست نہیں۔

حوالہ جات
قال في الهداية : " وإن اختلفا في وجود الشرط فالقول قول الزوج إلا أن تقيم المرأة البينة " لأنه متمسك بالأصل وهو عدم الشرط ولأنه ينكر وقوع الطلاق وزوال الملك والمرأة تدعيه " (ج:1,ص:245, دار احياء التراث العربي - بيروت - لبنان) وفي الدر المختار : "(فإن اختلفا في وجود الشرط) أي ثبوته ليعم العدمي (فالقول له مع اليمين) لإنكاره الطلاق، ..... إلا إذا برهنت) فإن البينة تقبل على الشرط..." وقال في الشاميه تحته: "(قوله في وجود الشرط) أي أصلا أو تحققا كما في شرح المجمع: أي اختلفا في وجود أصل التعليق بالشرط أو في تحقق الشرط بعد التعليق. " (ج:3,ص:356, دار الفكر-بيروت) وفي البحر الرائق : "وفيها سمعت بطلاق زوجها إياها ثلاثا، ولا تقدر على منعه إلا بقتله إن علمت أنه يقربها تقتله بالدواء، ولا تقتل نفسها، وذكر الأوزجندي أنها ترفع الأمر إلى القاضي فإن لم يكن لها بينة تحلفه فإن حلف فالإثم عليه، وإن قتلته فلا شيء عليها، والبائن كالثلاث." (ج:4,ص:63, دار الكتاب الإسلامي) و في الشاميه: " أن المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه." (ج:3,ص:305, دار الفكر-بيروت)

سمیع اللہ عباسی

دارالافتاء جامعۃ الرشید 

30/01/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے