021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بالغ ہونے کے بعد لڑکی نے دوسرانکاح کرلیاہو،اورپہلاشوہرعالم ہونے کے باوجودطلاق نہ دے۔
56204نکاح کا بیاننکاح صحیح اور فاسد کا بیان

سوال

عرض یہ ہے کہ جواب میں ذکرکردہ نکاح اگرختم نہ کیاجاسکے،جیساکہ صورت حال سے معلوم ہوتاہے، کافی عرصہ گزرگیا،اب جدائی ہوناناممکن ہے،توان کی خوشی غمی میں شریک ہونے کاکیاحکم ہے؟ قرآن وحدیث کی روسے بتائیں۔ اب جس شخص کامعاملہ ہے وہ عالم ہے،حالانکہ عالم توپوری قوم کاراہنماہوتاہے ،اگرعالم کی وجہ سے لوگ گناہگارہورہے ہوں،تواس کے لئے قرآن وحدیث وشرعی اصول سے کوئی طریقہ بتادیں،تاکہ آدمی طلاق دینے پرراضی ہوجائے۔ اوربات یہ ہے کہ کس کس درجے پرگناہگار ہوں گے؟زیادہ گناہ لڑکی والوں کوہوگایالڑکے والوں کویاعوام الناس کو،ان میں سے ہرایک کے بارے میں وضاحت کریں۔ اگرشریک ہونے والے لوگ گناہگارہیں توکس درجے پرہوں گے صغیرہ میں آئیں گے یاکبیرہ میں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں چونکہ پہلاشوہرعالم ہے تواس کوچاہئے کہ وہ اس بات کااستحضار کرے کہ اللہ تعالی نےاس پرخصوصی فضل فرمایاکہ اس کوعالم بنایااورسارے لوگوں میں سے اسی کوعلم دین کے لئے چنااورعلم کی دولت سے مالامال فرمایا،اس کواس علم کی قدرکرنی چاہئے،اورجو انسان علم حاصل کرتاہے،تواس کوچاہئےکہ اس علم پرعمل بھی کرے،کیونکہ علم بغیرعمل کے وبال ہوتاہےاوربجائے ثواب کے گناہ کاسبب ہوتاہے۔ عالم کوتوچاہئےکہ وہ لوگوں کی راہنمائی کرے ،اورلوگوں کوگناہوں سے بچائے،چہ جائے کہ وہ خودگناہ میں مبتلاہو،یااس کے عمل کی وجہ سے کوئی اورگناہ میں مبتلاہو،اورگناہ بھی کوئی چھوٹانہیں ہے، بلکہ زنا ہے جوبہت بڑاگناہ ہے۔ عالم اللہ اورلوگوں کے درمیان واسطہ ہوتاہے،عالم اپنے ایک ایک عمل کاذمہ دارہے،کیونکہ لوگ عالم کواپناپیشوااورمقتداسمجھتے ہیں اوراس کے ہرعمل کودیکھ کراسی طرح کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اگرعالم اچھے اعمال کرے گاتولوگ اسی کودیکھ اچھے اعمال کریں گے، جس کاثواب عالم کوبھی ملے گا اوراگربرے اعمال کرے گاتولوگ دیکھ کرعلماء کوبرابھلابھی کہیں گے اورعلماء سے بدظن بھی ہوں گےاوراسی طرح برے اعمال کریں گے،جس کاساراکاساراگناہ عالم پرہی ہوگا۔ ہمارے سامنے جوواقعہ کی پوری صورتحال ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ بیوی کاپہلانکاح جوعالم کے ساتھ بچپن میں ہواتھا،وہ نکاح ابھی تک برقرارہے،لڑکی کے بالغ ہونے سے وہ نکاح ختم نہیں ہوا،وہ ابھی تک اسی عالم ہی کی بیوی ہے،لیکن بیوی نے جودوسرانکاح کیاہے،وہ پہلے سے نکاح میںہوتے ہوئے دوسرانکاح ہے، جوکہ ناجائز،حرام اورزناہے،اوریہ پہلے شوہر کے علم میں ہے کہ اس کا بیوی کے ساتھ نباہ ہونامشکل ہے اوربیوی بھی اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی،اسی وجہ سےتو اس نے دوسرانکاح کیاہے،اگرچہ وہ نکاح ناجائزہے،جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ابھی تک پہلے شوہر کے نکاح میں ہے اورعالم دین ہونے کی وجہ سے شوہرکوبخوبی معلوم ہے کہ شریعت میں بدکاری اورزناکاکتنابڑاگناہ ہے،اگراسلامی حکومت اورشرعی قاضی ہوتوباقاعدہ اس کی سخت سزابھی ہوسکتی ہے۔ اس ساری صورت حال میں اصل گناہگارتو بیوی اوراس کے گھروالے ہیں جنہوں نے ایک نکاح کے ہوتے ہوئے دوسرانکاح کیاہے،لیکن اس گناہ میں اب پہلاشوہربھی شریک ہے،اس لئے کہ وہ اگراس کوبدکاری اورزنا سے بچاناچاہےتوبچاسکتا ہے،وہ اس طرح کہ وہ اس کوطلاق دیدے،جس سے بیوی اس کے نکاح سے نکل جائے گی،اورعدت گزارکردوبارہ اسی شوہرسے نکاح کرلےجس کے ساتھ ابھی رہ رہی ہےتونکاح بھی درست ہوجائےگاوروہ بدکاری سے بھی بچ جائیں گےاورعالم کوثواب بھی مل جائے گا۔

حوالہ جات
"الجامع لأحكام القرآن للقرطبي"1 / 366: {أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلا تَعْقِلُونَ} فيه تسع مسائل : الأولى : قوله تعالى : {أتأمرون الناس بالبر} هذا استفهام التوبيخ والمراد في قول أهل التأويل علماء اليهود. قال ابن عباس "كان يهود المدينة يقول الرجل منهم لصهره ولذي قرابته ولمن بينه وبينه رضاع من المسلمين اثبت على الذي أنت عليه وما يأمرك به هذا الرجل يريدون محمد صلى الله عليه وسلم فإن أمره حق فكانوا يأمرون الناس بذلك ولا يفعلونه" وعن ابن عباس أيضا "كان الأحبار يأمرون مقلديهم وأتباعهم باتباع التوراة وكانوا يخالفونها في جحدهم صفة محمد صلى الله عليه وسلم" وقال ابن جريج : كان الأحبار يحضون على طاعة الله وكانوا هم يواقعون المعاصي وقالت فرقة : كانوا يحضون على الصدقة ويبخلون والمعنى متقارب وقال بعض أهل الإشارات المعنى أتطالبون الناس بحقائق المعاني وأنتم تخالقون عن ظواهر رسومها. الثانية : في شدة عذاب من هذه صفته روى حماد بن سلمة عن علي بن زيد عن أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "ليلة أسري بي مررت على ناس تقرض شفاههم بمقاريض من نار فقلت يا جبريل من هؤلاء ؟ قال هؤلاء الخطباء من أهل الدنيا يأمرون الناس بالبر وينسون أنفسهم وهم يتلون الكتاب أفلا يعقلون" وروى أبو أمامة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إن الذين يأمرون الناس بالبر وينسون أنفسهم يجرون قصبهم في نار جهنم فيقال لهم من أنتم فيقولون نحن الذين كنا نأمر الناس بالخير وننسى أنفسنا" . قلت : وهذا الحديث وإن كان فيه لين ، لأن في سنده الخصيب بن جحدر كان الإمام أحمد يستضعفه ۔۔۔۔فقد دل الحديث الصحيح وألفاظ الآية على أن عقوبة من كان عالما بالمعروف وبالمنكر وبوجوب القيام بوظيفة كل واحد منهما أشد ممن لم يعلمه وإنما ذلك لأنه كالمستهين بحرمات الله تعالى ومستخف بأحكامه وهو ممن لا ينتفع بعلمه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "اشدالناس عذابا يوم القيامة عالم لم ينفعه الله بعلمه" أخرجه ابن ماجه في سننه.

محمدبن حضرت استاذ صاحب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

07/01/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے