021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کسی پر تہمت لگانے کا حکم
56260.0القرآنالفاتحہ

سوال

کیا فرماتے ہین علمائے کرام اور مفتیان عظام اس مسئلے کی وضاحت میں کہ ایک شخص مسمّی.. ع.. اور اس کی بیوی ’’ ز‘‘ (ساکنہ میتگلی محلہ نلّہ .....) نے مجھ پر جھوٹے الزامات اور تہمت لگائی اور مجھے گاؤں میں بدنام کیا، مذکورہ بالا اشخاص نے سر عام تہمت لگائی اور گالیاں بکیں ہیں ،جو تہمت لگائی اور جو گالیاں بکی ہیں وہ درج ذیل ہیں : 1:۔یہ کہ تم نے میری بیٹی کے ساتھ دست اندازی کی اور اس کے کپڑے چھری مار کر پھاڑ دیئے اور اسے برہنہ (ننگا) کرنے کی کوشش کی ۔ 2:۔ داڑھ (داڑھی کا غلط نام )رکھ کر ممبر پر بیٹھے ہو اور مسئلے کرتے ہواور وعظ کرتے ہو اور گھر میں عورتوں کے دست اندازی کرتے ہو ۔اور چھریاں مارتے ہو ۔آپ کیسے مولوی اور قاری ہو ۔اب مجھے لوگوں میں جھوٹ موٹ بدنام کیا گیا ہے اور گا ؤں میں عورتوں اور مردوں نے پوچھنا شروع کر دیا ہے ، کہ آپ نے یہ کام کیوں کیا ہے؟ ان واقعات کے بعد ایک نجی مجلس ہوئی جس مین لڑکی کا باپ (جس سے دست اندازی کی مجھ پر تہمت ہے ) اور قریبی رشتہ دار بھی شریک ہوئے اور کچھ لو گ دیگر لو گ منصف کی حیثیت سے بھی موجود تھے ان لو گوں نے مجلس میں لڑکی کے باپ (..ع..)سے اس تہمت کے ثبوت مانگے تو مسمّی ..ع.. کو ئی ثبوت پیش نہ کر سکا ۔حتّٰی کہ لڑکی نے خود مجلس میں آکر اس بات کی نفی (انکار )کر دی کہ میں نے اس کے ساتھ دست اندازی کی ہو یا چھری مار کر اس کے کپڑے پھاڑ دیئے ہوں ،لڑکی نے تو ان تمام باتوں کا انکار کر دیا ہے ۔مجلس میں دو ایسے عاقل بالغ اشخاص بھی موجود تھے جنھوں نے اس بات کی گواہی دی کہ انہوں نے ہمارے سامنے یہ تمام باتیں جن میں جھوٹی تہمت اور گالی گلوچ شامل ہیں کی تھیں ۔سائل ایک امام مسجد ہے اور مدرسہ میں استاد بھی ہے ،سائل کو جھوٹی تہمت لگا کر بدنام کیا گیا ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١۔کسی بھی مسلمان پر جھوٹی تہمت لگانا بڑا گناہ ہے قرآن وحدیث میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ،اگر کسی سے ایسا گناہ سرزد ہوجائے کہ ناحق کسی مسلمان پر الزام لگایا ، تو ان پر لازم ہے کہ فوری طور پر توبہ استغفار کرے ، اور جنس پر تہمت لگائی گئی ہےاس سے معافی مانگے ، ۲۔اگر پنچائیت کے سامنے الزام ثابت نہ کرسکے ،بلکہ ان کی براٴت ثابت ہوجائے توپنچائت والوں کو چاہئے کہ جرم ثابت نہ ہونے کا اعلان کریں، اور الزام لگانے والے سے کہاجائے کہ وہ سر عام معافی مانگے ،اور فریقین کے درمیان صلح صفائی اور فساد سے روکنے کے لئے جو طریقہ موئثر ہو اس کو اختیار کریں، ۳۔جھوٹی تہمت لگانے والوں کےلئے تہمت کی نوعیت کے لحاظ سے شریعت مطہرہ میں مختلف سزائیں موجود ہیں، اس کے لئے عدالت سے رجوع کرنا ضروری ہے ،عوام یا پنچا ئیت کا خود سے کسی تعزیری سزا کا فیصلہ کرنا درست نہیں ۔

حوالہ جات
{وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (58) يَا} [الأحزاب: 58، 59] سنن البيهقي لأبو بكر البيهقي (2/ 98) باب مَا جَاءَ فِى حَدِّ قَذْفِ الْمُحْصَنَاتِ قَالَ اللَّهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ (وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلاَ تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ) الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم (3/ 77) الثامن والعشرون بعد المائة عن عبد الرحمن بن أبي نعم عن أبي هريرة قال سمعت أبا القاسم {صلى الله عليه وسلم} يقول من قذف مملوكه وهو بريء مما قال جلد يوم القيامة إلا أن يكون كما قال وفي حديث عبد الله بن نمير من قذف مملوكة بالزنا يقام عليه الحد يوم القيامة إلا أن يكون كما قال

احسان اللہ شائق

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

12/02/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / فیصل احمد صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے