021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ریزرو فنڈ پر زکوۃ کا حکم
57744زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

کمپنی کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ سال بھر کاروبار کرنے کے بعد سالانہ نفع کا حساب لگاکر منافع کا کچھ حصہ محفوط کرلیتی ہے تاکہ آئندہ ہونے والے نقصان سے بچنا آسان ہو اور بقیہ نفع شیئر ہولڈروں کے درمیان تقسیم کردیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ریزرو فنڈ پر زکوۃ ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس پر؟ o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں منافع کا وہ حصہ جو کمپنی نے ریزرو فنڈ کے طور پر محفوظ کیا ہے تو اس کی زکوۃ شیئر ہولڈر کے ذمہ لازم ہےاس لیے کہ یہ ان کی ملکیت میں ہے۔ لیکن اگر شیئرز ہولڈرزنے فروخت کرنے کی نیت سے شیئر خریدے ہوں تو وہ کل بازاری قیمت کا چالیسواں حصہ ادا کریں گےاور جب شیئر کی زکوۃ بازاری قیمت کے حساب سے ادا کریں گےتو چونکہ بازاری قیمت میں کمپنی کے تمام اثاثے بشمول ریزرو فنڈ، منعکس ہوتے ہیں، اس لئے ریزروفنڈ کی زکوۃ الگ سے نکالنے کی ضرورت نہیں۔اگر انہوں نے شیئرز فروخت کرنے کی نیت سے خریدے نہ ہوں بلکہ شرکت جاری رکھنے کے لیے خریدے ہوں، تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ کمپنی کے ناقابل زکوۃ اثاثوں کا تناسب اپنے حصے کی کل بازاری قیمت سے منہا کرلے مثلاً کمپنی کے ناقابل زکوۃ اثاثے (عمارت، فرنیچر وغیرہ) اگر کل اثاثوں کا بیس فیصد ہوں تو وہ اپنے حصے کی بازاری قیمت میں سے بیس فیصد منہا کرسکتے ہیں۔ ریزرو فنڈ چونکہ قابل زکوۃ اثاثوں میں شامل ہے، اس لیے اسے ناقابل زکوۃ اثاثوں کے تناسب میں شامل کرکے منہا نہیں کیا جائے گا۔
حوالہ جات
(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك) خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض إلا إذا حكم عليه بنفقتهم (جزء مال) خرج المنفعة، فلو أسكن فقيرا داره سنة ناويا لا يجزيه (عينه الشارع) وهو ربع عشر نصاب حوليخرج النافلة والفطرة (من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه) أي معتقه، (وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام)… (و) فارغ (عن حاجته الأصلية) لأن المشغول بها كالمعدوم. وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقا كثيابه أو تقديرا كدينه…(نام ولو تقديرا) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه… (ولا في ثياب البدن) المحتاج إليها لدفع الحر والبرد ابن ملك (وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) وكذا الكتب وإن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة، غير أن الأهل له أخذ الزكاة" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)2/256 ط:دار الفکر-بیروت) "قال - رحمه الله - (وفي عروض تجارة بلغت نصاب ورق أو ذهب) يعني في عروض التجارة يجب ربع العشر إذا بلغت قيمتها من الذهب أو الفضة نصابا ويعتبر فيهما الأنفع أيهما كان أنفع للمساكين وهو معطوف على قوله في أول الباب في مائتي درهم وعشرين دينارا ربع العشر واعتبار الأنفع مذهب أبي حنيفة ومعناه يقوم بما يبلغ نصابا إن كان يبلغ بأحدهما ولا يبلغ بالآخر احتياطا لحق الفقراء" (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي1/279 ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ) "(ولأن السبب هو المال النامي) ش: أي سبب وجوب الزكاة هو المال النامي، أي ملك النصاب النامي م: (ولا نماء إلا بالقدرة على التصرف ولا قدرة عليه) ش: أي على التصرف فلا زكاة، وذلك لأن النماء شرط لوجوب الزكاة، وقد يكون النماء تحقيقا، كما في عروض التجارة، أو تقديرا كما في التقدير والمال الذي لا يرجى عوده لا يتصور تحقق الاستنماء فيه، فلا يقدر الاستنماء أيضا كذلك." (البناية شرح الهداية3/306 ط:دار الکتب العلمیۃ) "(الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت) أي سواء كانت من جنس ما تجب فيه الزكاة كالسوائم أو من غيره كالثياب والحمير." (الجوهرة النيرة على مختصر القدوري1/124 ط:المطبعۃ الخیریۃ) واللہ سبحانہ وتعالی اعلم باالصواب سید کامران دارالافتاء ، جامعۃ الرشید 26رجب1438ھ
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / فیصل احمد صاحب