021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک وقف کی جگہ کودوسرےوقف کے مصالح کے لئے بیچنا
58097 وقف کے مسائلمدارس کے احکام

سوال

ایک پلاٹ دوبھائیوں نے اپنے بیٹے اوربھتیجے کومدرسہ بنانے کے لئے وقف کردیاتھا،پھرکچھ عرصے کے بعد ایک اورپلاٹ مسجد اورمدرسہ بنانے کے لئے مل گیا،اب اس دوسرے پلاٹ میں مسجد اورمدرسے کی تعمیر کے لئے رقم کی ضرورت ہے،اب پہلے پلاٹ کوجوکہ مدرسہ کے لئے وقف تھا،کیااس کوبیچ کراس کی قیمت دوسرے پلاٹ کی مسجد اورمدرسے کی تعمیر میں لگاناجائزہے یانہیں؟آپ حضرات قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلے کی وضاحت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اصل تویہ ہے کہ وقف کی جگہ کوبیچنا،تبدیل کرنایااس میں کسی قسم کاتصرف کرناہرگزجائزنہیں،البتہ اگروقف کرنے والوں(دوبھائیوں )نے وقف کرتے وقت ہی اس بات کاتذکرہ کیاہواوراس کی اجازت دی ہو کہ ضرورت کےوقت اس کوبیچایاتبدیل کیاجاسکتاہے،یاپہلی جگہ مدرسہ بنانے میں وقف کے منافع ومقاصد بالکلیہ فوت ہوتے ہوں کہ اس جگہ میں اگرمدرسہ بنایاجائے توتعلیم تعلم کاسلسلہ بالکل نہیں ہوگایانہ ہونے کے برابر ہوگاتوایسی صورت میں اس کوبیچ کردوسری جگہ کے وقف کے لئے استعمال کیاجاسکتاہے،ورنہ نہیں۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" 18 / 451: وليس للقيم ولاية الاستبدال إلا أن ينص له بذلك۔ "الفتاوى الهندية" 18 / 454: ولو كان الوقف مرسلا لم يذكر فيه شرط الاستبدال لم يكن له أن يبيعها ويستبدل بها وإن كانت أرض الوقف سبخة لا ينتفع بها كذا في فتاوى قاضي خان وقد اختلف كلام قاضي خان ففي موضع جوزه للقاضي بلا شرط الواقف حيث رأى المصلحة فيه ، وفي موضع منعه منه ولو صارت الأرض بحال لا ينتفع بها والمعتمد أنه يجوز للقاضي بشرط أن يخرج عن الانتفاع بالكلية وأن لا يكون هناك ريع للوقف يعمر به وأن لا يكون البيع بغبن فاحش كذا في البحر الرائق وشرط في الإسعاف أن يكون المستبدل قاضي الجنة المفسر بذي العلم والعمل كذا في النهر الفائق۔ "رد المحتار" 17 / 209: ( فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن ) ( قوله : فإذا تم ولزم ) لزومه على قول الإمام بأحد الأمور الأربعة المارة عندهما بمجرد القول ، ولكنه عند محمد لا يتم إلا بالقبض والإفراز والتأبيد لفظا ، وعند أبي يوسف بالتأبيد فقط ولو معنى كما علم مما مر ( قوله : لا يملك ) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه ، ولا يعار ، ولا يرهن لاقتضائهما الملك درر۔ "الاسعاف "32 : وامااذالم یشترط فقداشارفی السیرالی أنہ لایملکہ الاالقاضی اذارأی المصلحۃ فی ذالک،ویجب ان یخصص برأی أول القضاۃ الثلاثۃ المشارالیہ بقولہ علیہ الصلاۃ والسلام ،قاضی فی الجنۃ وقاضیان فی النار،المفسر بذای العلم والعمل لئلایحصل التطرق الی ابطال الوقف کماھوالغالب فی زماننا۔

محمد بن حضرت استاذ صاحب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

24/09/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے