021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بینک کے سود کا مصرف
60464سود اور جوے کے مسائلمختلف بینکوں اور جدید مالیاتی اداروں کے سود سے متعلق مسائل کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کےبارے میں کہ میراایک بینک میں سیوینگ اکاؤنٹ ہےجس سے مجھے سودی رقم ملتی ہے ،مجھے ان پیسوں سے کوئی لالچ نہیں ہے اورمیرے کسان (ھاریوں)میں غریب ہندواورمسلم دونوں ہیں، کیامیں یہ رقم ان کو کپڑے ،جوتے اورگھرکی تعمیرات کےلیے دے سکتاہوں یانہیں ؟اورکیامسلمان بیوہ کویہ رقم خرچہ کےلیے دی جاسکتی ہے یانہیں؟ میرے کرایہ دار بل لائٹ وغیر اورماہانہ کرایہ لیکر بھاگ گئے ہیں کیا اس رقم کومیں بل وغیرہ میں ادا کرسکتاہوں؟ میرے گھر کے قریب ایک خالی پلاٹ ہے جو گندگی سے بھراپڑاہے جس کی وجہ سے وہاں سے گزرنے والی نالی گندسے بھری ہوئی ہوتی ہے ،روزانہ اس نالی کو میں خود صاف کرتاہوں، کوئی سیپر وغیرہ اس کی صفائی کے لیے مقررنہیں ہے، کیا میں اس رقم سےاس نالی کی موری وغیرہ بناسکتاہوں؟ کسی بھی شخص کو رومال کپڑے وغیرہ بغیر کسی لالچ کےاس رقم سے خریدکر دے سکتاہوں؟میری بہن اوربھابھی جو گاؤں اوردیہات میں رہتی ہیں اوربالکل غریب ہیں ان کو گھر کے کام کےلیے دےسکتاہوں؟ ان کے گھر میں باتھ روم اورغسل خانہ بنوانے کےلیےیہ رقم دے سکتاہوں؟ کسی قرض خواہ کا قرض اس سے ادا کرسکتاہوں؟ کسی کی شادی بیاہ میں اس سے سامان خریدکر دے سکتاہوں ؟ بدیگر صورت اگریہ رقم بینک والوں کودی جاتی ہے تو وہ اس کو اپنے مصارف میں خرچ کردیتے ہیں ۔برائے کرم ان سوالوں کا جواب مرحمت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اولاً تو یہ سمجھیں کہ سودی کھاتے میں رقم رکھنا ہی صحیح نہیں، تاہم اگر کسی مجبوری یالاعلمی کی وجہ سے کسی نے رکھ دی ہوتو اسے فوراًنکال کر کسی اسلامی بینک میں اورجہاں اسلامی بینک نہ وہاں مروجہ بینک کے کسی غیرسودی کھاتے میں منتقل کرناضروری ہے۔اب تک جو سود بینک میں اصل رقم پرجمع ہواہے اس بارے میں علماءِ عصر کی دو رائے ہیں : بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ وہ رقم بینک ہی میں رہنے دی جائے اوروصول نہ کی جائےکیونکہ سودی رقم کی وصولی جائز نہیں ہے، وصول کرکے صدقہ کرنا ایسا ہے جیسے گناہ کرکے کفارہ ادا کرنا۔ جبکہ دوسرےبعض حضرات کی رائے یہ ہے اسے بینک میں چھوڑنے کے بجائے وصول کرکے بلانیتِ ثواب صدقہ کی جائے یارفاہی کاموں میں لگائی جائے، کیونکہ بینک میں چھوڑنے سے سودی بینک کوتقویت ملتی ہےاور نیز یہ بھی شنیدہےبینکوں سےیہ رقم بعض اوقات ایسےرفاہی ادارےاٹھالیتے ہیں جوخلافِ شرع کاموں میں مصروفِ عمل ہوتے ہیں، لہذایہ رقم بینکوں میں باقی رکھنےبجائے نکال کربغیرنیتِ ثواب صدقہ کی جائے یا رفاہی کاموں میں اسے صرف کی جائے، یہی آخری رائے ہماری نظر میں زیادہ راحج اورمتوازن ہے،کیونکہ سودی بینکوں کوتقویت بخشنے اورغیر شرعی کاموں میں مصروف عمل رفاہی اداروں کے دست وبازوں بننے سے بہر حال یہ بہتراوراہون ہے کہ اپنے ہاتھ سے یہ نکال کرغریبوں کی مدد کی جائے یااپنے طورپررفاہی کاموں میں اسے خرچ کی جائے۔ لہذا آپ پہلے تو اصل رقم کسی اسلامی بینک ، اگر وہ نہ ہوتوکسی سودی بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں منتقل کریں اورپھر اضافی رقم بینک سے نکال کراسےغریبوں پر بلانیت ثواب صدقہ کردیں، چاہے وہ غریب آپ کا عزیر ہویا اجنبی،مسلمان ہویاہندو،بیوہ ہویااس کے کوئی اورغریب، پھرغریب جوچاہے اس رقم کاکرے،کپڑے خریدے ،جوتے خریدے تعمیرات میں خرچ کرے ،گھرکے اخراجات میں صرف ہے،شادی بیاہ میں خرچ کرےیا اس کے علاوہ جوبھی جائز کام اس سے کرے ان کی مرضی ہے ، نیز آپ یہ رقم کسی رفاہی کام جیسے نالی وغیرہ میں بھی خرچ کرسکتے ہیں، تاہم آپ کے لیےمذکورہ رقم اپنے استعمال میں لانا یا اس سے اپناقرض یابل اداکرناجائز نہیں ہے ۔
حوالہ جات
فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 385) قالوا لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اهـ. ’’ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق اذا تعذر الرد علی صاحبہ ‘‘( رد المحتار: ۹/۵۵۳ ، "فیتصدق بلا نیۃ ثواب " قواعد الفقہ، القواعد الفقھیۃ :ص: ۱۱۵ ) قال العلامۃ ابن عابدین: والحاصل انہ ان علم ارباب الاموال وجب ردہ علیہم والا فان علم عین الحرام لا یحل لہ ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ۔ (ردالمحتار ۴:۱۴۶ مطلب فیمن ورث مالا حراما) قال اللہ تعالی : {وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ [المائدة: 2] وفی أحكام القرآن للجصاص (3/ 296) وقوله تعالى وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى. قال العلامۃ الحصکفی: والضابط ان من ابتلی ببلیتین فان تساویا خیر وان اختلفا اختار الاخف.(الدرالمختار ۱:۳۰۳،۳۰۴ قبیل بحث النیۃ) وفی شرح المجلۃ: یختار اهون الشرین۔ (شرح المجلۃ ۱:۷۰، المادۃ: ۲۹) وفی مجموع الفتاوى (29/ 323) الأموال المغصوبة والمقبوضة بعقود لا تباح بالقبض إن عرفه المسلم اجتنبه. فمن علمت أنه سرق مالا أو خانه في أمانته أو غصبه فأخذه من المغصوب قهرا بغير حق لم يجز لي أن آخذه منه؛ لا بطريق الهبة ولا بطريق المعاوضة ولا وفاء عن أجرة ولا ثمن مبيع ولا وفاء عن قرض فإن هذا عين مال ذلك المظلوم. وأما إن كان ذلك المال قبضه بتأويل سائغ في مذهب بعض الأئمة جاز لي أن أستوفيه من ثمن المبيع والأجرة والقرض وغير ذلك من الديون.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب