021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لڑکوں سے کس عمر میں پردہ ضروری ہے؟
60955جائز و ناجائزامور کا بیانپردے کے احکام

سوال

لڑکوں کی عمرِ بلوغت جس کے بعد ان سے پردہ کرنا فرض ہے، وہ کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر لڑکوں کے اندر بلوغت کی کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو مفتیٰ بہ قول کے مطابق 15 سال عمر ہونے پر وہ بالغ کہلائیں گے، لیکن پردے کا اصل مدار شہوت کی حد کو پہنچنے پر ہے، لہٰذا لڑکا جب اتنی عمر کا ہوجائے جس میں اس کو شہوت آتی ہو یا اس کو دیکھنے سے عورت کو شہوت پیدا ہوتی ہو تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہے ، اگرچہ اس کی عمر ابھی پندرہ سال نہ ہو۔ اسی لیے حدیث میں 10 سال کے بچوں کا بستر الگ کرنے کا حکم ہے۔ یہ عمر اس زمانے کے لحاظ سے تھی، اب مختلف اسباب کی بناء پر اس سے کم عمر بچوں میں بھی مخصوص معاملات کی سمجھ بوجھ پیدا ہوجاتی ہے۔
حوالہ جات
القرآن الکریم: {وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ} [النور: 31] أحکام القرآن للجصاصؒ (5/177): قوله تعالی (أو الطفل الذین لم یظهروا علی عورات النساء) قال مجاهد: الذین لایدرون ما هن من الصغر، وقال قتادة: الذین لم یبلغوا الحلم منکم، قال أبوبکر: قول مجاهد أظهر؛ لأن معنی أنهم لم یظهروا علی عورات النساء أنهم لایمیزون بین عورات النساء والرجال لصغرهم وقلة معرفتهم بذلك، وقد أمر الله تعالی الطفل الذی قد عرف عورات النساء بالاستئذان فی الأوقات الثلاثة بقوله (لیستأذنکم الذین ملکت أیمانکم والذین لم یبلغوا الحلم منکم) وأراد به الذی عرف ذلك واطلع علی عورات النساء، والذی لایؤمر بالاستئذان أصغر من ذلك، وقد روی عن النبی صلی الله علیه وسلم أنه قال: "مروهم بالصلاة لسبع واضربوهم علیها لعشر وفرقوا بینهم فی المضاجع"، فلم یأمر بالتفرقة قبل العشر؛ لأنه قد عرف ذلك فی الأکثر الأعم ولا یعرفه قبل ذلك فی الأغلب. معارف القرآن للمفتی محمد شفیع ؒ ( 6/405): أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ اس سے مراد وہ نابالغ بچے ہیں جو ابھی بلوغ کے قریب بھی نہیں پہنچے اور عورتوں کے مخصوص حالات وصفات اور حرکات وسکنات سے بالکل بے خبر ہوں۔ اور جو لڑکا ان امور سے دلچسپی لیتا ہو وہ مراہق یعنی قریب البلوغ ہے، اس سے پردہ واجب ہے (ابن کثیر) امام جصاصؒ نے فرمایا کہ یہاں طفل سے مراد وہ بچے ہیں جو مخصوص معاملات کے لحاظ سے عورتوں اور مردوں میں کوئی امتیاز نہ کرتے ہوں ۔ (ذکرہ عن المجاھد). الفتاوى الهندية، فصل فی النظر والمس (5/ 330): والغلام الذي بلغ حد الشهوة كالبالغ كذا في الغياثية.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب