021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کی طرف پتھر پھینکا اور یہ کہا کہ اب یہ میری بیوی نہیں
63527طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میری بیوی اور میری ماں کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوگیا جس پر میری ماں نے اس کو گھر سے نکالنے کی دھمکی دے دی،اس ٹائم میں اپنا گھر بنارہا تھا اور یہ میری ماں کے گھر میں تھی،مکان آدھا بن گیا تھا اور آدھا نہیں بنا تھا،بجلی کا نظام بھی نہیں تھا،چارپائی وغیرہ کچھ بھی نہیں تھا تو میری بیوی نے ضد پکڑلی کہ میں اپنے گھرجاتی ہوں ،میں زمین پر سوجاؤں گی،لیکن میں تمہاری ماں کے ساتھ مزید ٹائم نہیں گزارسکتی، وہ اپنے گھر آگئی مطلب میرے گھر آگئی،ماں کا گھر ہمارے گھر کے قریب تھا،، میں نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ماں کا دماغ کام نہیں کررہا ،تم اندھیرے میں زمین پر کیسے رات گزاروگی ،لیکن وہ ضد کررہی تھی تو میں نے اس کو ڈرانے کے لیے اتنا کہا کہ اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو میں تمہیں تین پتھر دوں گا ،باقی میں نےنام نہیں لیا اور نہ میری کوئی ایسی نیت تھی،میں نے یہ کہا کہ آپ میری ماں کے گھر جاؤ، اگر ماں کے گھر نہیں گئی تو کل تک اپنے والد کے گھر چلی جانا،بس اس وقت یہ گھر سے باہر نکلی ،میں اس کے پیچھے اور وہ آگے،راستے میں ہماری ماں کا گھر ہے،میں اپنی ماں کے گھر میں گھس گیا اور یہ گیٹ کے باہر کھڑی رہی کہ اب کیا کروں،اپنے والد کے گھر جاؤں یا اس کی ماں کے گھر،میں آواز دے رہا ہوں کہ آجاؤ،لیکن وہ سوچ میں باہر کھڑی تھی اور میری آواز نہیں سن رہی تھی ،اس دوران میں نے ایک پتھر اٹھایا اور زور سے گیٹ کو مارا ،اس لیے کہ یہ اس کی آوزا سن کر آجائے،حالانکہ میری نیت اس کے لیے صاف تھی،اور تاکہ میری ماں بھی یہ چیخ و پکار سن کر راضی ہوجائے اور اس کو اندر بلالے،پھر میں دوڑا ور ایک دوسرا پتھر اٹھانے والا تھا کہ میری بھابھی آگئی اور وہ پتھر میرے ہاتھ سے اس جگہ گرادیا جہاں سے اٹھانے والا تھا،مطلب جلدی میرے ہاتھ سے گرادیا اور اس دوران میں زور زور سے رورہاتھا،ماں کمرے سےنکلی اور بھابھی مجھے ماں کے کمرے میں لے گئی، ماں نے مجھے کمرے میں بٹھایا ،مجھے پانی پلایا ، میری بیوی بھی اس وقت آگئی تھی جس وقت میری بھابھی مجھے کمرے میں لے جارہی تھی، اب میری بیوی بولتی ہے کہ میں قسم کھاتی ہوں کہ میں نےصرف وہ ایک پتھر دیکھا جو تم اٹھارہے تھے،باقی میں نے اور کچھ نہیں سنا اور نہ دیکھا ہاں میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں نے ماں کو صرف اتنا بولا کہ یہ اب میری بیوی نہیں ہے یہ اپنے والد کے گھر چلی جائے،اس میں میرا مطلب یہ تھا کہ یہ مجھ سے معافی مانگے،مفتی صاحب میری بھابھی نے اس کو کہا کہ معافی مانگو وہ مجھ سے معافی تو کیا میرے پاؤں پر گرگئی کہ مجھے معاف کردو،میرے بچے میری گود میں دے دئیے،میں نے اس کو معاف کردیا۔ اب وہ شک و شبہ میں ہے،میں نے ایک دو مفتیوں سے اس بارے میں دریافت کیا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ طلاق نہیں ہوئی۔ میری بیوی اس شک کی وجہ سےباپ کے گھر میں بیٹھی ہوئی ہے اور میں کبھی کدھر جاتا ہوں ،کبھی کدھر،اس سے فون پر بات ہوتی ہے،وہ کہتی ہے کہ مجھے تحریری طور پر ثبوت چاہیے،مجھے تمہاری بات پر بھروسہ نہیں،تو مفتی صاحب عرض یہ ہے کہ اس مسئلے کا تحریری جواب عطا فرماکر مشکور فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زبان سے طلاق کے الفاظ کہے بغیر صرف بیوی کی طرف پتھر پھینکنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی،چاہے طلاق کی نیت ہو یا نہ ہو،اسی طرح ان الفاظ "یہ اب میری بیوی نہیں ہے،یہ اپنے والد کے گھر چلی جائے" سے بھی بغیر نیت کے طلاق واقع نہیں ہوتی،چونکہ آپ نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں کہے تھے،اس لیے آپ کی بیوی کو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،لہذا آپ دونوں بلاشک و شبہ کے ایک دوسرے کے ساتھ میاں بیوی کے طور پر رہ سکتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں آپ نے بیوی کے حوالے سے انتہائی نامناسب رویہ اختیار کیاہے،اس پر توبہ و استغفار اور آئندہ کے لیے اجتناب کا اہتمام کرنا آپ پر لازم ہے۔
حوالہ جات
"رد المحتار" (3/ 230): "(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي. وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره". "البحر الرائق " (7/ 36): "واعلم أن إنكار النكاح كما لا يكون فسخا لا يقع به الطلاق وإن نوى بخلاف لست لي بامرأة فإنه يقع به إن نوى عنده خلافا لهما كما في طلاق البزازية وفي البزازية ادعت الطلاق فأنكر ثم مات لا تملك مطالبة الميراث اهـ". "فتاوى قاضيخان" (1/ 225): "ولو قال لامرأته لست لي بامرأة أو قال ما أنت لي بامرأة أو قال ما أنا بزوج لك قال أبو حنيفة رحمه الله تعالى أن نوى وقوع الطلاق يقع وإلا فلا وقال صاحباه لا يقع وأن نوى". "فتح القدير للكمال ابن الهمام" (4/ 67): "واختلف في لست لي بامرأة وما أنا لك بزوج ونوى الطلاق يقع عند أبي حنيفة، وقالا لا لأن نفي النكاح ليس طلاقا بل كذب فهو كقوله: لم أتزوجك أو والله ما أنت لي امرأة، أو لو سئل هل لك امرأة؟ فقال: لا ونوى الطلاق لا يقع كذا هنا. وله أنها تحتمله: أي لست لي بامرأة لأني طلقتك فيصح نفيه كما في لا نكاح بيني وبينك ومسألة الحلف ممنوعة، وبعد التسليم نقول بدلالة اليمين علم أنه أراد النفي عن الماضي لا في الحال لأن الحلف يكون فيما يدخله الشك لا في إنشاء النفي في الحال". "الدر المختار " (3/ 301): "(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة، والنية باطنة". قال ابن عابدین رحمہ اللہ ": (قوله توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب...... والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب