021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مردو عورت کا چھپے طور پر دوستی کرنا
68832جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

آج کل لڑکیاں پرائیویٹ میڈیکل اور دیگر کالجوں میں داخلہ لیتی ہیں ،وہاں پر لڑکوں سے دوستی لگالیتی ہیں ؛مثلا ہماری ایک عزیز کی بیٹی کا 18 سال کی عمر میں پرائیویٹ میڈیکل کالج داخلہ ہوا،22 سال کی عمر تک وہاں ایم بی بی ایس ہوتا رہا اور ایک لڑکے سے دوستی بھی ہوگئی ،5 سال اس دوستی میں گزرے،ایک سال ہاؤس جاب  ہوئی،اس میں بھی دوستی جاری رہی  جس کا دونوں خاندانوں کو بھی  معلوم ہے۔ اب نوکری کرتے ہوئے بھی ڈیڑھ سال ہوگیا ہے،لڑکی صاحبہ کا اصرار ہے کہ اس نے اسی لڑکے سے شادی کرنی ہے۔ہم نے اس لڑکے سے بدرجہا بہتر رشتے  دکھائے،ایم بی بی ایس،ایف سی پی ایس  سپیشلسٹ ڈاکٹر ،خاندانی شریف لڑکوں کے رشتے دکھائے ،مگر اس عزیز کی بیٹی  کا اصرار ہے وہ اسی سے شادی کرے گی۔ہمارا منہ بند کرنے کے لیے وہ ام المئومنین  سیدہ خدیجہ  الکبری رضی اللہ عنہا کا حوالہ دیتی ہیں کہ انہوں نے بھی تو نبی کریم  حضرت محمد ،احمد مجتبی مکی مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند کیا تھا اور خود ہی رشتہ بھیج کر  شادی کی تھی۔

                             آنجناب سے درخواست ہے کہ اس خالص  دینی مغالطے میں کافی شافی جواب عطا فرمائیں!

                             2۔کیا آج کل لڑکیوں ،لڑکوں کا اس طرح پہلے چھپی،پھر کھلی دوستیاں لگانے کی اجازت حاصل ہے؟

                             3۔کیا ایسی حالت میں ام المؤمنین  رضی اللہ عنہا کا حوالہ دیا جاسکتا ہے؟

                             4۔کیا آج کے دور  جدید میں اسلامی روایات اور ترجیحات بدل جاتی ہیں؟

                             5۔کیا یہ کھلی بے حیائی ہے یا درست عمل ہے؟

                             6۔کیا ایسے شتے میں خیر و برکت ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1،2)اسلام  نے انسانیت کو ایک خوبصورت نظام زندگی دیا ہے ،اس نظام زندگی میں  ہی معاشرتی و خاندانی نظام کی حفاظت ہے۔آپ کے سوالات کے جواب سے پہلے دو باتوں کا  سمجھنا ضروری ہے:پہلی یہ کہ   لڑکے لڑکیوں کا آپس میں کھلے یا چھپے طور پر دوستیاں لگانا کسی طور پر بھی جائز نہیں ،یہ کھلی بے حیائی ہے  اور اسلامی تعلیمات سے بغاوت ہے۔ ہمارے یونیورسٹی کالجوں میں  ہمارا پورا اسلامی خاندانی  نظام بگڑتا جارہا ہے جس کو روکنے کی ضرورت ہے۔اول تو  اپنے بچوں کو مخلوط نظام تعلیم میں داخل ہی نہیں کروانا چاہیے، اگرکسی مجبوری سے داخل  کروایا بھی جائے تو کوشش یہی ہو کہ والدین اپنی نگرانی میں  اپنے بچوں کو پڑھائیں ۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ ان دونوں کی دوستی  خاندان  والوں کو بھی معلوم تھی ،اس لیے  منع نہ  کرنے پر وہ بھی گنہگار ہوں گے،لہٰذا سب کو  صدق دل سے توبہ اور  استغفار کرنا چاہیے۔

دوسری  بات یہ کہ عاقل بالغ مرد اور  عورت کو اس بات کا اختیار ہے کہ  وہ اپنی پسند اور مرضی سے نکاح کرسکتا ہے،البتہ جو شادی والدین  کی رضامندی اور مشورہ سے کی جاتی ہے، اس میں ہی خیرو برکت  ہوتی ہے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کی شادی سے پہلے  بچوں کی رائے معلوم کرلیں  اور بچوں کو بھی چاہیے کہ والدین کی رضامندی کا خیال رکھیں ،کیونکہ ان کی مرضی سے  جہاں شادی ہوگی،  اسی میں اللہ تعالی خیر وبرکتیں  عطا  فرمائیں گے  ۔

 آج کل مغربی  تہذیب کی یلغار نے  جہاں پسند کی  شادیوں کو پروان چڑھایا ہے ،وہیں اس کی وجہ سے طلاق کی شرح بھی انتہائی زیادہ بڑھ گئی ہے۔اس کی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ پسند کی شادی میں وقتی جذبات  محرک بنتے ہیں،  جب وقت گزرنے کے بعد ان جذبات میں کمی آتی ہے  اور ایسے وقت میں اگر والدین بھی ناراض ہوں تو   علیحدگی تک کی نوبت آجاتی ہے۔لہٰذا والدین اور بچے باہمی مشورہ سے  رشتہ  طے کریں تو بہتر ہے ،البتہ چونکہ زندگی لڑکے لڑکی نے ہی ساتھ گزارنی ہے ،اس لیے  شریعت نے اختیار  ان کو ہی دیا ہے ،لہٰذا اگر وہ کہیں  رشتہ کرنا چاہیں تو والدین کو بھی  دیکھ بھال کر  وہیں رشتہ کردینا چاہیے۔

(3)جہاں رشتہ پسند ہو ،اس کا والدین کو بتانا اور وہاں کرنے کا کہنا اور رشتہ کرنے میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی مثال دینا بھی درست ہے،البتہ شادی کے معاملات طے کرنے میں والدین ہی کو کردار دینا چاہیے، اس کے بغیر نکاح میں برکت نہیں ہوتی ۔

(4)دور جدید میں بھی  اسلامی روایات اور ترجیحات بدستور قائم ہیں ،البتہ ان سے ناواقفیت کی وجہ سے بسا اوقات غلط فہمی پیدا   ہوجاتی ہے،لہٰذا اسلامی تعلیمات اور احکام سے پوری طرح واقفیت حاصل کرنا چاہیے۔

(5)یہاں دو  باتیں قابل غور ہیں : پہلی یہ کہ چھپے  اور کھلے طور پر دوستیاں لگانا کھلی بے حیائی ہے،  اس سے اجتناب لازم ہے ۔دوسری یہ کہ والدین کو پسندیدہ جگہ  رشتہ کرنے کا کہنا بے حیائی نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی گناہ ہے،البتہ والدین کی مرضی سے ہو تو زیادہ بہتر ہوگا۔

(6)رشتے میں خیر و برکت  اسی میں زیادہ ہوگی جس میں والدین اور اولاد کے مشورہ سے کہیں شادی کی جائے،البتہ اگر اختلاف ہوجائے تو پھر ترجیح لڑکے ،لڑکی ہی کی پسند کو ہوگی، کیونکہ انہوں نے اکٹھے زندگی گزارنی ہے

اگر ان دونوں کے درمیان موافقت ہی نہ ہوگی تو پھر نبھا نہ ہوپائے گا۔نیز  اگر والدین نے جبرا دوسری جگہ نکاح کردیا تو اس کے نتائج بھیانک نکلنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

حوالہ جات
قال اللہ تبارک وتعالی:فانكحوا ما طاب لكم من النساء مثنى وثلاث ورباع فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة أو ما ملكت أيمانكم ذلك أدنى ألا تعولوا اذا خطب احدکم.(سورۃ النساء:3،4)
وقال ایضا:وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا.(سورۃ الاسراء:32)
وقال العلامۃ ابن کثیر رحمہ اللہ: ولا تقربوا الزنى إنه كان فاحشة وساء سبيلا.يقول تعالى ناهيا عباده عن الزنا، وعن مقاربته، ومخالطة أسبابه ودواعيه {ولا تقربوا الزنى إنه كان فاحشة} أي ذنبا عظيما، {وسآء سبيلا} أي وبئس طريقا ومسلكا. (تفسیر ابن کثیر:2/376)
وروی الإمام البخاری عن ابن عباس رضی اللہ عنہ ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يخلون رجل بامرأة إلا مع ذي محرم فقام رجل، فقال: يا رسول الله، امرأتي خرجت حاجة، واكتتبت في غزوة كذا وكذا، قال: ارجع فحج مع امرأتك.(الجامع الصحیح: 5233 )
و روی الإمام أبو داؤد رحمہ اللہ عن جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا خطب أحدكم المرأة، فإن استطاع أن ينظر إلى ما يدعوه إلى نكاحها فليفعل قال: فخطبت جارية فكنت أتخبأ لها حتى رأيت منها ما دعاني إلى نكاحها، وتزوجها فتزوجتها زوجھا.                        (سنن أبی داؤد:2082)

    محمد عثمان یوسف

  دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

 25جمادی الثانیۃ 1441ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب