69206 | زکوة کابیان | مستحقین زکوة کا بیان |
سوال
ہماری مسجد کےامام صاحب،جنہوں نےمسجد اورعلاقہ کی تیس30 پینتس35 سال خدمت کی۔ان کو مسجد کمیٹی نےبیمارہونےپراچانک نکال دیاہے۔ امام صاحب کےگھرمیں کل 9 افراد ہیں۔ ان کےگھر کی ٹوٹل آمدنی اندازا 45000 ہزار روپےہے۔جس میں زیادہ ترامام اور ان کےبیٹوں کی علاقےمیں ٹیوشن شامل ہےاورامامت جانےسےرہائش بھی جائےگی توان کو علاقہ چھوڑجانےکی وجہ سےیہ رقم بھی اثرانداز ہونےکاشدیدخطرہ ہے۔
اس رقم میں ایک بڑےخاندان کاگزارا مشکل ہےمگررہائش چلےجانےسےان کوکرائےپرگھریاپلیٹ لینا پڑےگاجس کاماہانہ خرچہ ان کےلیےدیناناممکن ہوگا۔اگرکوئی رہائش خریدناچاہیں اس کےاسباب بھی ان کےپاس میسرنہیں۔اس حوالےسےمندرجہ ذیل وضاحت مطلوب ہے۔
کیاان حالات میں امام صاحب زکوۃ کامستحق ہےکہ نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
زکوۃ کامستحق ہر وہ شخص ہےجونصاب کامالک نہ ہویعنی اس کےپاس ضرورت سےزائد اتنا مال (سونا، چاندی،مکان، زمین،کتابیں وغیرہ) نہ ہوجس کی قیمت ساڑھےباون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوجائے۔پھراس طرح نصاب کامالک نہ ہونےکی وجہ سےجوشخص زکوۃ کامستحق ہےاس کی تنخواہ یاآمدنی چاہےجتنی ہی ہو،اس کو نہیں دیکھاجاتا،لہذاصورت مذکورہ میں اگر امام کےپاس ضرورت سےزائد اتنامال جمع نہ ہوتواس کی ماہانہ آمدنی خواہ جتنی بھی ہو،وہ زکوۃ کامستحق ہےاور ان کوزکوۃ دیناجائز ہے۔نیز ایسی صورتحال میں اہل محلہ کوامام صاحب کےساتھ مقدور بھرتعاون کرناچاہیے۔
حوالہ جات
{ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ} [التوبة: 60]
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 137)
مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شئ) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير تام مستغرق في الحاجة
ضیاءاللہ
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
16رجب الخیر1441ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ضیاء اللہ بن عبد المالک | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |