021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت کی صورت میں نقصان کا حکم
70418مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

مجھے ایک شخص نے کاروبار کے لیے رقم دی ۔ اس کا کل سرمایہ اکتیس لاکھ پچاس ہزارروپے (3150000) تھا۔ دکان میں نے کرایے پر لی۔ دکان میں محنت ،ٹائم اور دکان چلانا میرے ذمہ تھا۔ دکان کھولنے سے پہلے ہم نے ایگریمنٹ لکھا تھا کہ دکان میں جو بھی نفع نقصان ہوگا اس میں ہم دونوں برابر کے شریک ہوں گے ۔ تقریباً 1 سال بعد دکان میں سے کچھ منافع حاصل ہوا۔بعد میں ہم نے کاروبار ختم کرنے کے لیے دکان میں موجود سامان فروخت  کیا، جس میں تقریباً پانچ لاکھ پچاس ہزار روپے (550000)کا نقصان ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اس نقصان کا ازالہ ہم دونوں برابری پر کرینگے یا فریقین میں سے کوئی ایک کریگا۔ اور اگر کوئی ایک فریق کرے گا تو وہ کون سا فریق ہوگا؟

تنقیح:تمام سرمایہ ایک شریک کا تھا ،دوسرے شریک کی محنت تھی ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکرکردہ صورت مضاربت کی ہے ۔جس کا اصولی حکم یہ ہے کہ نفع فریقین کے درمیان طے شدہ تناسب سے تقسیم  کیا جائے گا،البتہ سارا نقصان رب المال (جس کا سرمایہ ہو)برداشت کرے گابشرطیکہ مضارب(کام کرنے والے ) کی طرف سے کوئی واضح غفلت نہ پائی گئی ہو۔ لہذا  کاروبار شروع کرتے وقت آپ کا معاہدہ  میں نفع  کے ساتھ نقصان کو بھی  برابری کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی شرط لگانا جائز نہیں تھا اور نہ ہی اس شرط کا شرعاً کوئی اعتبار ہے ،بلکہ نقصان اب بھی رب المال (جس کا سرمایہ ہے ) ہی برداشت کرے گا۔

البتہ نقصان  کو پورا کرنے  کا طریقہ کار یہ ہے کہ تمام نقصان کو پہلے نفع سے پورا کیا جائے گا،خواہ نفع فریقین کے درمیان تقسیم ہوگیا ہو یا تقسیم نہ ہوا ہو۔لہذا مسئولہ صورت میں جو نفع تقسیم ہوا ہے اس کو واپس کرکے نقصان پورا کیا جائے گا،پھر بھی نقصان پورا نہ ہو تونفع کے بقدر نقصان ،اس نفع سے پورا کرلیاجائے گا اور بقیہ سارا نقصان رب المال (جس کا سرمایہ ہے )برداشت کرے گا۔اس دوسری صورت میں کام کرنے والا نقصان میں شریک نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 458)
إذا تلف مقدار من مال المضاربة بلا تعد فيحسب في بادئ الأمر من الربح ولا يسري إلى رأس المال؛ لأن الربح تابع ورأس المال أصل فينصرف الهالك إلى التابع (مجمع الأنهر)
أما إذا تلف بتعدي المضارب فيلزم الضمان والقول في الربح والخسران للمضارب مع اليمين ولا يلزم على المضارب بيان الربح والخسار مفصلا كما أن القول للمضارب في الضياع وفي الرد لرب المال (التكملة) ۔۔۔۔(فيحسب من الربح) أنه يشمل الربح سواء كان موجودا أو جرى تقسيمه والأصل أن تقسيم الربح قبل قبض رب المال رأس ماله موقوف إن قبض رأس المال صحت القسمة وإن لم يقبض بطلت (تكملة رد المحتار) وذلك لو بقيت المضاربة بعد تقسيم الربح وتلف مؤخرا كل رأس المال أو بعضه فيرد الربح المأخوذ ويعاد إلى رأس المال ويكمل رأس مال رب المال وإذا زاد شيء عن ذلك فيأخذ رب المال والمضارب على الوجه المشروط وإذا نقص رأس المال فلايضمنه المضارب.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 459)
يعود الضرر والخسار في كل حال على رب المال إذا تجاوز الربح إذ يكون الضرر والخسار في هذا الحال جزءا هالكا من المال فلذلك لا يشترط على غير رب المال ولا يلزم به آخر. وإذا شرط أن يكون مشتركا بينهما أو جميعه على المضارب فلا يعتبر ذلك الشرط.أي يكون الشرط المذكور لغوا فلا يفسد المضاربة (الدرر) ؛ لأن هذا الشرط زائد فلا يوجب الجهالة في الربح أو قطع الشركة فلا تفسد المضاربة به حيث إن الشروط الفاسدة لا تفسد المضاربة (مجمع الأنهر)

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

14ربیع الاول 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب