021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کو کسی کے ساتھ کھانا کھانے پر معلق کرنا
70600طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

ایک دفتر میں سات افراد کام کرتے ہیں جو دوپہر کا کھانا اکٹھے کھاتے ہیں اور خرچہ تقسیم کر لیتے ہیں۔ ایک دن خرچے کی وجہ سے ان میں تو تکار ہوئی تو ان میں سے ایک بندے نے کہا کہ اگر میں آج کے بعد آپ کے ساتھ کھانا کھاؤں تو میری بیوی کو طلاق ہے۔ اب قابل دریافت امر یہ ہے کہ

1ـ کیا یہ بندہ اجتماعی خرچے میں ان کے ساتھ چائے میں شریک ہو سکتا ہے؟ اور چائے پی سکتا ہے؟

2ـ اگر سٹاف میں سے کوئی بندہ اپنے ذاتی خرچے سے تمام سٹاف کی دعوت کرے تو کیا یہ دعوت میں شریک ہو سکتا ہے ؟

3ـ اگر یہ بندہ گھر سے کھانا لائے تو کیا اپنے سٹاف کے ساتھ بیٹھ کر کھا سکتا ہے ؟

4ـ کیا یہ بندہ اپنے دفتر میں یا اپنے گھر میں یا باہر ہوٹل وغیرہ میں اپنے سٹاف کو یا سٹاف کے کسی ممبر کو کھانا کھلا سکتا ہے ؟

5ـ اسی طرح اگر سٹاف میں سے کوئی ممبر دفتر سے باہر اپنے گھر میں یا ہوٹل وغیرہ میں اس کی دعوت کرے تو کیا یہ دعوت کھا سکتا ہے ؟

تمام جزئیات کا تفصیلی حکم فرما دیں۔

(واضح رہے کہ اس بندے نے دوسرے دن سٹاف کے ساتھ بیٹھ کر قہوہ پیا ہے)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ مسئلہ میں وہ شخص کسی صورت میں بھی ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتا، چاہے وہ کھانا اجتماعی خرچے سے آئے یا کوئی ایک شخص اپنے ذاتی پیسوں سے لائےیا یہ شخص اپنے ذاتی خرچ پر لائے یا کھانا لانے کی بجائے یہ لوگ کسی ہوٹل جا کر اکٹھے کھانا کھائیں۔ اگر ایسا کرے گا تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی۔اگر ایک بار اکٹھے کھانا کھا لیاتو ایک طلاقِ رجعی واقع ہو جائے گی۔آئندہ کھانا کھانے میں حرج نہیں اور بیوی کی عدت کے دوران رجوع کر سکتا ہے، جس کا طریقہ یہ ہوگا کہ یہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی سے رجوع کیا۔ پھر آئندہ اس کو دو طلاقوں کا حق ہوگا۔ البتہ ان کے ساتھ چائے یا قہوہ پینے میں کوئی حرج نہیں۔

حوالہ جات
قال الإمام محمد رحمہ اللہ تعالٰی: لو قال: لا آكل مع فلان طعاما أبدًا، فأكلا على مائدة واحدة من طعام مختلف حنث.
(الأصل: 3/317)
وقال العلامۃ علی بن أبی بکر الفرغانی رحمہ اللہ تعالٰی: ولو نوى به آخر النهار يصدق ديانة لا قضاء لأنه نوى التخصيص في العموم وهو يحتمله لكنه يخالف الظاهر.
وقال تحتہ العلامۃ بدر الدین العینی رحمہ اللہ تعالٰی: (لأنه نوى التخصيص في العموم، وهو يحتمله) ش: أي يحتمل الخصوص، فيصدق ديانة، كما لو قال: لا أكل طعاما، ونوى طعاما دون طعام.
(البنایۃ: 5/322)
وقال العلامۃ فخر الدین الزیلعی رحمہ اللہ تعالٰی: الأكل إيصال ما يتأتى فيه المضغ، والهشم إلى الجوف ممضوغا كان، أو غير ممضوغ، والشرب إيصال ما لا يتأتى فيه الهشم إلى الجوف.
(تبیین الحقائق: 3/124)

محمد عبداللہ

25/ ربیع الاول 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبد اللہ بن عبد الرشید

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب