70558 | نکاح کا بیان | محرمات کا بیان |
سوال
ایک لڑکی جس کا خاندان اہل تشیع میں سے ہے، لیکن اُس کی فیملی الگ رہتی ہے۔ اُس لڑکی اور اُس کے والدین اور بہنوں کے عقائد و نظریات میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ وہ لڑکی قرآن کریم کی تکمیل پر یقین رکھتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی نہیں دیتی۔ حضرت علی کو خدا نہیں مانتی۔ حضرت جبریل علیہ السلام کو خائن نہیں کہتی۔ قرآن کریم بچپن میں سنی قاری سے پڑھا اور نماز بھی سنی طرز پر پڑھتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتی ہے اور اُنہی کا کلمہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ پڑھتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر کوئی بری بات نہیں کہتی اور نہ ہی اُس کے گھر والے۔
تو کیا اِس گھرانے کی اِس لڑکی سے نکاح جائز ہے، جبکہ لڑکا سنی ہے اور اِس لڑکی اور اِس کے گھر والوں کو دو سال سے جانتا ہے؟ اُن لوگوں کے ناموں کے آگے پیچھے کوئی حسین، رضوی، جعفری وغیرہ کے ناموں کا لاحقہ بھی نہیں لگتا اور لڑکی کی ماں نعت خواں ہے۔ براہِ کرم جواب عنایت فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل بلکل درست اور واقع کے مطابق ہےتو سنّی لڑکے کا اُس لڑکی سے نکاح جائز ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی: تجوز المناکحۃ بین الحنفيۃ والشافعيۃ بلا شبھۃ. وأما المعتزلۃ فمقتضی الوجہ حل مناکحتھم؛ لأن الحق عدم تکفیر أھل القبلۃ کما قدمنا نقلہ عن الأئمۃ.
(البحر الرائق: 3/182)
وقال أیضا: إیمان المقلد صحیح، وھو الذی اعتقد جمیع أرکان الإسلام بلا دلیل.
(البحر الرائق: 8/331)
صفی ارشد
دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی
52 ربیع الاول 1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |