021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض پر نفع حاصل کرنے کاحکم
70586خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

مسئلہ یہ ہےکہ 2013ء میں میں نے اپنی بہن کو ساڑھے تین تولہ سونا  اور ایک لاکھ روپے کیش منافع پر  کاروبار کی  مد میں دیے تھے (اس وقت سونے کا مارکیٹ ریٹ 63000 روپے فی تولہ تھا)۔جتنا بھی نفع ہوتا تھا وہ ہمارے درمیان فیصد کے اعتبار سے تقسیم ہوتا تھااور مجھے اپنے نفع کی اطلاع ملتی رہتی تھی اور میری رضامندی سے ہی وہ نفع میری بہن کے پاس ہی جمع ہورہا تھا۔ یہ معاملہ تقریباً ڈھائی تین سال تک چلا۔

پھر 2015ء میں انہوں نے مجھ سے کہاکہ ہمارے درمیان جو کاروباری معاملہ چل رہا تھا،اب وہ ختم اور تمہاری اصل رقم مع نفع ملاکر کل چھ لاکھ پچھتر ہزرا(6,75000) میری طرف ہیں ۔ اسی دوران میرےبہنوئی کا بھی انتقال ہوگیا تھا تو انہوں نے مجھ سے اس رقم کی ادائیگی کے بارے میں کہا کہ مجھے میرے والدین کی طرف سے جو وراثت میں حصہ ملے گا ،میں اس میں سے تمہارے پیسے ادا کردونگی اور میں اس پر راضی بھی ہوگیا اور انہوں نے میری رقم کسی اور کو قرضہ دے دی۔اس کے کچھ عرصے بعد انہوں نے مجھ سے کچھ ضرورت کی وجہ سے پچیس ہزار روپے  مزید ادھار لیا  اور ان کی طرف میری کل رقم سات لاکھ روپے ہوگئی۔

پھر 2020ء کی ابتداء میں  میں نے ان سے اپنے پیسوں کاشدت سے مطالبہ کیا اورکہاکہ اگر میرے یہ پیسے میرے پاس ہوتے تو میں انہیں کہیں  اور لگا دیتا اور شاید اب تک تو یہ دوگنے بھی ہوچکے ہوتے ،تو میرے اس مطالبے پر گھر کے کچھ لوگوں کی موجودگی میں یہ طے ہوا کہ اب مجھے اپنے نفع اور اصل رقم کی مد میں 14 لاکھ روپے ملیں گے یعنی مزید سات لاکھ اور۔ اب کچھ دن پہلے میری بہن کا انتقال ہوگیا ہے ۔اب مذکورہ بالا صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے چند چیزوں کے بارے میں رہنمائی  درکار ہے :

1۔ سات لاکھ  میں مزید جو سات لاکھ کا اضافہ ہے ،جس کی وجہ سے قرضہ 14 لاکھ تک پہنچ گیا ہے  اس کا میرے لیے کیا حکم ہے ؟

2۔میں نے اصل رقم میں جو سونا اپنی بہن کے ہاتھ میں کاروبار کے لیے دیاتھا،اس کی قیمت 2013 کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا؟ یا پھر آج کی قیمت کا؟

3۔ میری بہن کی حیات میں ہی 2015 سے پہلے میراجو نفع میری رضامندی سے انہیں کے پاس جمع ہورہا تھا ،اس کا میرے کیا حکم ؟

4۔ اگر میرے لیے یہ نفع لینا جائز ہے تو پھر میرا یہ نفع کتنا بنتا ہے ،کیونکہ میرے پاس اس بارے میں کوئی لکھت پڑھت نہیں ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1 تا4)2013 میں آپ نے اپنی بہن کو جو رقم کاروبار کے لیے دی تھی اس کی حیثیت مضاربت کی تھی  ۔ سونے کے فی تولہ ریٹ مارکیٹ  کے اعتبار سے چونکہ مقرر تھے،لہذااْس وقت کے اعتبار سے  پورے سونے کی ماریٹ    ویلیو اور نقدرقم مضاربت کا راس المال شمار ہوگی ، سونے کی موجودہ قیمت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔

2015 میں جب مضاربت کا معاملہ ختم ہوگیا  تو آپ کا اصل سرمایہ مع نفع یعنی چھ لاکھ پچھتر ہزار روپے  آپ کی بہن کے پاس امانت تھا ،جب انہوں نے وہ رقم آپ کو بتاکر کسی اور کو دے دی تو وہ رقم ان کی ذمہ قرض ہوگئی۔ پھر بعد میں انہوں نے آپ سے مزید 25000 روپے  بطور قرض لیے ،اس طرح اْن کے ذمہ آپ کا کل قرضہ سات لاکھ روپے ہوگیا۔لہذا اب  اپنی  بہن کے انتقال کے بعد آپ اْن کے ترکہ سے صرف سات لاکھ روپے ہی لے سکتے ہیں، زائد رقم لینا جائز نہیں ہے، کیونکہ قرض پر زائد رقم لینا سود ہے ،جس کا لین دین  شرعاً ناجائز ہے ۔ لہذا اْن کی طرف سے اس زائد رقم کے التزام کی وجہ سے بھی آپ کے لیے اْن کے ذمہ میں یہ زائد رقم لازم نہیں ہوگی ۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع (6/ 80)
ولو قال خذ هذا المال واعمل به على أن ما رزق الله عز وجل من شيء فهو بيننا على كذا ولم يزد على هذا فهو جائز لأنه أتى بلفظ يؤدي معنى هذا العقد والعبرة في العقود لمعانيها لا لصور الألفاظ حتى ينعقد البيع بلفظ التمليك بلا خلاف وينعقد النكاح بلفظ البيع والهبة والتمليك عندنا  وذكر في الأصل لو قال خذ هذه الألف فابتع بها متاعا فما كان من فضل فلك النصف ولم يزد على هذا فقبل هذا كان مضاربة استحسانا والقياس أن لا يكون مضاربة  وجه القياس أنه ذكر الشراء ولم يذكر البيع ولا يتحقق معنى المضاربة إلا بالشراء والبيع  وجه الاستحسان أنه ذكر الفضل ولا يحصل الفضل إلا بالشراء والبيع فكان ذكر الابتياع ذكرا للبيع وهذا معنى المضاربة
البحر الرائق (6/ 133)
ولا يجوز قرض جر نفعا بأن أقرضه دراهم مكسرة بشرط رد صحيحة أو أقرضه طعاما في مكان بشرط رده في مكان آخر فإن قضاه أجود بلا شرط جاز ويجبر الدائن على قبول الأجود وقيل لا كذا في المحيط
بدائع الصنائع (7/ 395)
وأما الذي يرجع إلى نفس القرض فهو أن لا يكون فيه جر منفعة فإن كان لم يجز نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة على أن يرد عليه صحاحا أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن قرض جر نفعا ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا لأنها فضل لا يقابله عوض والتحرز عن حقيقة الربا وعن شبهة الربا واجب
المعیار الشری رقم 13 (ص239)
الأصل فی رأس  مال المضاربۃ أن یکون نقداً۔ ویجوز أن تکون العروض رأس مال المضاربۃ ، وتعد فی ھذہ الحالۃ قیمۃ العرض عند التعاقد باعتبارھا رأس مال المضاربۃ و یتم تقویم العروض  حسب رأی ذوی الخبرۃ أو باتفاق الطرفین ۔

واللہ سبحانہ و تعالی اعلم

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

24 ربیع الاول 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب