021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ٹھیکیدار سے مجموعی رقم پر معاہدہ کر کے اس سے کسی چیز کا استثناء کرنا اور بعد میں اسے شامل کرنا
70565خرید و فروخت کے احکامسلم اور آرڈر پر بنوانے کے مسائل

سوال

میں نے ایک ٹھیکیدار کے ساتھ ایک عمارت کی تعمیر کا معاہدہ کیا تھا ۔ ٹھیکیدار نے مجھے کام کی تمام تفصیلات بتائی کہ وہ کیا کیا کام کروائیں گے ، اور اس کے بعد مجموعی خرچ کی رقم بھی بتائی ۔ ٹھیکیدار نے جو کام بتائے ان میں برآمدے میں فالس سیلنگ کا کام بھی شامل تھا ۔ میں نے فالس سیلنگ کروانے سے منع کردیا ۔ منع کرنے کے بعد مجموعی خرچ کی رقم ، حسبِ سابق باقی رہی اور اس میں سے فالس سیلنگ کی رقم کی کٹوتی نہیں کی گئی تھی ۔ تعمیر کے دوران جب فالس سیلنگ کا مرحلہ آیا تو ٹھیکیدار صاحب نے مجھے فالس سیلنگ کے نمونے بھیجے تاکہ نمونہ منتخب کیا جائے (حالانکہ ان کو فالس سیلنگ کے کروانے سے منع کردیا گیا تھا) ۔ میں نے نمونہ منتخب کردیا  اس گمان کے ساتھ کہ شاید وہ ٹھیکیدار صاحب  مجموعی خرچ میں آنے والے تمام کام کرنا چاہتے ہیں ۔ اب مسئلہ یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ  تعمیر کے بعد ، آخری ادائیگی کی بات چیت کے دوران ٹھیکیدار صاحب نے مجموعی خرچ کے ساتھ فالس سیلنگ کی رقم بھی مجھ پر لازم کی ۔ حالانکہ فالس سیلنگ کا کام  ان کے مجموعی خرچ کے کاموں میں پہلے ہی سے شامل تھا  اور میرے منع کرنے کے بعد فالس سیلنگ کی رقم کی کٹوتی نہیں کی گئی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ  کیا وہ فالس سیلنگ کے زائد خرچ کے مطالبہ میں درست ہیں ؟

نوٹ : تمام معاملات تحریری پیش آئےتھے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

استصناع (ٹھیکیداری) کے معاملے کا مدار عرف پر ہوتا ہے۔ عمارتوں میں ٹھیکیداری کے معاملے میں ہمارے یہاں کا عرف یہ ہے کہ جس چیز کا استثناء کر دیا جائے اس کی رقم بعض اوقات ابتدا میں ہی مجموعی رقم سے منہا کر دی جاتی ہے اور بعض اوقات معاملہ مکمل ہونے کے بعد حساب کتاب میں منہا کی جاتی ہے الا یہ کہ اس کے خلاف صراحتاً طے ہو جائے۔ اس  عرف کے مطابق سوال میں مذکور صورت میں جب ابتدا میں فالس سیلنگ کا خرچہ کل مجموعی خرچے میں شامل تھا اور آپ نے ابتدا میں فالس سیلنگ کروانے سے منع کر دیا تو فالس سیلنگ کی رقم کو انتہاء میں کل رقم سے منہا کیا جانا تھا ۔ لیکن بعد میں جب نمونے دیکھنے کے بعد آپ نے اجازت دے دی تو یہ رقم دوبارہ شامل ہو گئی۔  لہذا ٹھیکیدار آپ سے وہ رقم لینے کا حق دار ہے جو ابتداءً مجموعی خرچ کی رقم کے طور پر طے ہوئی تھی۔ البتہ اس مجموعی خرچ کی رقم سے زائد کا مطالبہ کرنا  ٹھیکیدار کے لیے درست نہیں ہے۔

مذکورہ بالا جواب ہمارے یہاں (کراچی، پاکستان) کے عرف کے مطابق ہے۔ اگر آپ کے یہاں کا عرف اس سے مختلف ہو یا صراحتاً کچھ طے ہوا ہو تو مذکورہ بالا جواب نہیں ہوگا۔ اس صورت میں اپنے یہاں کے عرف یا صراحتاً طے شدہ معاملے کی تفصیل لکھ کر بھیج دیجیے۔

حوالہ جات
إذا قال شخص لأحد من أهل الصنائع: اصنع لي الشيء الفلاني بكذا قرشا وقبل الصانع ذلك انعقد البيع استصناعا. مثلا: لو أرى المشتري رجله لخفاف وقال له اصنع لي زوجي خف من نوع السختيان الفلاني بكذا قرشا وقبل البائع , أو تقاول مع نجار على أن يصنع له زورقا , أو سفينة وبين له طولها وعرضها وأوصافها اللازمة وقبل النجار انعقد الاستصناع. كذلك لو تقاول مع صاحب معمل أن يصنع له كذا بندقية , كل واحدة بكذا قرشا وبين الطول والحجم وسائر أوصافها اللازمة وقبل صاحب المعمل انعقد الاستصناع.
(مجلة الاحكام العدلية، 1/76، ط: نور محمد)
 
لأن المعلوم بالعرف كالمعلوم بالشرط ولا تتمكن المنازعة بينهما إذا كان ذلك معلوما؛ فلهذا جوزناه، ثم تبين بعد هذا ما يجوز فيه الاستصناع وحاصل ذلك أن المعتبر فيه العرف وكل ما تعارف الناس الاستصناع فيه فهو جائز۔۔۔.
(المبسوط للسرخسي، 15/90، ط: دار المعرفة)

محمد اویس پراچہ     

 دار الافتاء، جامعۃ الرشید

تاریخ: 26/ ذو الحج 1438ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب