021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بالغہ لڑکی کے حقِ نکاح میں اختلاف
70568نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

میرے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں، ہمارے والد صاحب نے ہماری والدہ کو طلاق دیا ہے۔ ہماری دیکھ بھال اور اخراجات ماموں برداشت کررہے ہیں۔ جس وقت والدہ کو طلاق ہوئی، بڑے بھائی اور بڑی ہمشیرہ کے علاوہ ہم نابالغ تھے۔ اب تک 23 سال گزرچکے ہیں، والد صاحب نے ہماری کوئی خبر گیری نہیں کی، انہوں نے دوسری شادی کی ہے جس سے ان کے تین بچے ہیں۔  

میری بڑی ہمشیرہ کا ہم نے قریبی رشتہ داروں میں نکاح کیا، لیکن والد صاحب نے انکار کیا اور کہا کہ میں نے اس کا رشتہ کسی اور آدمی کو دیا ہے۔ لیکن پھر ان لوگوں نے رشتہ لینے سے انکار کیا، اس لیے ہمشیرہ کا رشتہ وہیں ہوا جہاں ہم نے کیا تھا۔

اب میری دوسری ہمشیرہ کے نکاح کا مسئلہ ہے۔ ہم بھائیوں نے اس کا رشتہ اپنے قریبی عزیز سے کیا ہے، میرے والد صاحب کو نکاح کی خبر ملی، انہوں نے انکار یا اثبات کی صورت میں کچھ نہیں کہا، تقریبا تین چار سال کا عرصہ گزرگیا، رخصتی کا وقت آیا تو اب کہنے لگے میں نے اس کا رشتہ فلاں آدمی مثلا زید کے بیٹے کو دیا ہے، جبکہ زید نامی آدمی کو رشتہ دینے، نہ دینے کی خبر بھی نہیں۔ معاملہ آگے بڑھا تو کہنے لگے نہیں میں نے شاکر نامی آدمی کے بیٹے کو اس کا رشتہ دیا ہے، میں نے پوچھا شاکر کے کس بیٹے کو؟ تو کہنے لگے عثمان کو۔ جب شاکر سے پوچھا کہ میرے والد نے ہماری ہمشیرہ کا رشتہ آپ کے کس بیٹے کو دیا ہے تو کہنے لگے ابراہیم کو، جبکہ دونوں کے پاس قیل و قال کے علاوہ کوئی گواہ نہیں۔ جبکہ ہماری ہمشیرہ بڑی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں میرے والد صاحب کو ولایتِ اجبار ہے یا نہیں؟ آیا میری ہمشیرہ کو ولایتِ فسخ حاصل ہے یا نہیں؟ قاضی کے پاس جاکر دعوی دائر کرسکتی ہے یا نہیں؟ (سائل نے فون پر بتایا کہ یہ سوال والد صاحب کے دعوی کے مطابق ان کے کرائے ہوئے نکاح سے متعلق ہے)۔

یہی صورتِ حال میری تیسری ہمشیرہ کا بھی ہے۔   ہمارے والد صاحب جو کچھ کر رہے ہیں، کیا یہ ظلم ہے یا نہیں؟ اور کیا یہ شرعا درست ہے؟ بیٹیوں کے پاس نکاح کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں والد پر گناہ ہوگا یا نہیں؟

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ جب ہم بھائیوں نے اپنی دوسری اور تیسری ہمشیرہ کا نکاح کرایا تھا تو اس وقت وہ دونوں بالغہ تھیں، نکاح ان کی رضامندی سے اور کفؤ میں ہوا ہے۔ اس کے بعد والد صاحب کہنے لگے کہ میں نے ان کے رشتے فلاں فلاں کو دئیے ہیں، جبکہ وہ دوسری ہمشیرہ کا رشتہ جس لڑکے کو دینے کا کہہ رہے ہیں اس کی پہلے سے دو بیویاں موجود ہیں۔ اسی طرح تیسری ہمشیرہ کا رشتہ جس لڑکے کے لیے کہہ رہے ہیں وہ بھی شادی شدہ ہے، مزید یہ کہ ہم نے اس کے والد صاحب سے رشتہ کے بارے میں پوچھا تو وہ بھی لا علم تھا۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ بالغہ لڑکی پر ولی کو ولایتِ اجبار حاصل نہیں، لہٰذا اس کا نکاح اس کی اجازت اور رضامندی کے بغیر درست نہیں۔ اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیلات درست ہیں تو آپ بھائیوں نے اپنی دونوں بہنوں کا جو نکاح ان کی رضامندی سے کرایا ہے وہ درست ہوا ہے، آپ کے والد صاحب کا رخصتی میں رکاوٹ بننا شرعا جائز نہیں۔

حوالہ جات
الهداية (1/ 196):
باب في الأولياء والأكفاء:  وينعقد نكاح الحرة العاقلة البالغة برضاها وإن لم يعقد عليها ولى بكرا كانت أو ثيبا عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله في ظاهر الرواية، وعن أبي يوسف رحمه الله أنه لا ينعقد إلا بولي، وعند محمد ينعقد موقوفا…….ووجه الجواز أنها تصرفت في خالص حقها وهي من أهله لكونها عاقلة مميزة ولهذا كان لها التصرف في المال ولها اختيار الأزواج، وإنما يطالب الولي بالتزويج كيلا تنسب إلى الوقاحة. ثم في ظاهر الرواية لا فرق بين الكفء وغير الكفء ولكن للولي الاعتراض في غير الكفء وعن أبي حنيفة وأبي يوسف أنه لا يجوز في غير الكفء لأنه كم من واقع لا يرفع ويروي رجوع محمد إلى قولهما. ولا يجوز للولي إجبار البكر البالغة على النكاح.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

25/ربیع الاول/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب