021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کیا ایسے شخص کی نماز جنازہ جائز ہے جو دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتا؟
70588جنازے کےمسائلنماز جنازہ

سوال

: شریعت ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتی ہے جو اپنی بیوی کی کمائی کھاتا رہا اور بیوی کی بیوہ بہن کی محنت سے جمع کی ہوئی پونجی ہتھیاکر دنیا سے چلا گیا؟ کیا ایسے قرض دار شخص کی نماز جنازہ جائز ہے؟ ایسے شخص کا آخرت اور قبر میں کیا انجام ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جو شخص دوسروں کے واجبات اور حقوق ادا نہیں کرتا  باوجود یہ کہ وہ اس پر قادر ہو اور دوسروں کا مال ناجائز طریقے سے دبالیتا ہے تو ایسا شخص سخت گناہ گار ہے۔ قرآن و حدیث میں ایسے شخص کے بارے میں سخت  وعیدیں آئی ہیں۔  ایسا شخص اگر لوگوں کے حقوق ادا کیے بغیر دنیا سے چلا جائے تو اس کو آخرت میں عذاب ہوگا۔بندوں کے حقوق اس وقت تک معاف نہیں ہوتے جب تک کہ وہ خود معاف نہ کریں۔البتہ اگر صاحب حق خود اپنا حق معاف کردے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے شخص کو معاف کردیتا ہے۔

اس لیے مناسب یہی ہے کہ اگر آپ ان کے ورثاء اور گھر والوں سے اپنا حق وصول نہیں کرسکتیں تو پھر بددعائیں دینے کے بجائے  مرحوم کو اپنا حق معاف کردیں تاکہ  وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے۔

جہاں تک نماز جنازہ کی بات ہے تونماز جنازہ ہر اس مسلمان کا جائز ہے جو ایمان کی حالت میں دنیا سے گیا ہو، چاہے وہ دین دار ہو یا فاسق اور گناہگار۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ"ہرنیک و بد کی نمازجنازہ پڑھا کرو"۔  لہذا مذکورہ شخص کی نماز جنازہ جائز ہے۔

حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک مرتبہ قرض دار کی نماز جنازہ نہیں پڑھی،تووہ حدیث اگرچہ صحیح ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قرض دار کی نماز جنازہ جائز نہیں۔ اس لیے کہ اس موقع پر بھی  آپ ﷺ نے خود تو نماز جنازہ  نہیں  پڑھی مگر  دوسروں کو پڑھنے کا حکم فرمایا۔دوسرے اس سے آپ ﷺ کا مقصد یہ تھاکہ لوگوں کے سامنے قرض ادا نہ کرنے اور اس میں خواہ مخواہ ٹال مٹول کرنے کی قباحت و شناعت ظاہر ہوجائے اور لوگ وقت پر قرض کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔چنانچہ یہی وجہ  ہے کہ یہ آپ ﷺ کا ابتدائی عمل  تھا،بعد میں جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو وسعت دی اور مسلمانوں کے پاس مال کی فراوانی ہوگئی تو پھر آپ ﷺ ہر مقروض کی نماز جنازہ پڑھا کرتے تھے اور اس کا قرض خود ادا فرماتے تھے۔

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مقروض کی نماز جنازہ جائز ہے، اگرچہ اس کو قرض ادا نہ کرنے کا گناہ ہوگا۔ اس لیے مرحوم کے ورثا یا اس کے قریبی رشتہ داروں کو چاہیے کہ اگر مرحوم کے ترکہ میں اتنا مال نہ ہو کہ اس سے قرض کی ادائیگی کی جائے تو اپنی طرف سے اس کا قرض ادا کردیں،جیسا کہ حضور ﷺ کا عمل تھا، تاکہ مرحوم کا ذمہ بری ہوجائے اور آخرت کے عذاب میں مبتلا نہ ہو۔

حوالہ جات
سنن ابن ماجه (1/ 488)
عن واثلة بن الأسقع قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( صلوا على كل ميت . وجاهدوا مع كل أمير ).
حاشية السندي على ابن ماجه (3/ 304)
 قوله ( على كل ميت )المراد به المسلم وهو ظاهر فهو مخصوص عند كثير بغير شهيد والمقصود من الحديث أن الصلاة لا تختص بأهل الصلاة.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 311)
وأما بيان من يصلى عليه فكل مسلم مات بعد الولادة يصلى عليه صغيرا كان، أو كبيرا، ذكرا كان، أو أنثى، حرا كان، أو عبدا إلا البغاة وقطاع الطريق، ومن بمثل حالهم لقول النبي: - صلى الله عليه وسلم - «صلوا على كل بر وفاجر».
تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي (7/ 179)
 قال القاضي وغيره: امتناع النبي صلى الله عليه وسلم عن الصلاة على المديون إما للتحذير عن الدين، والزجر عن المماطلة، والتقصير في الأداء، أو كراهة أن يوقف دعاءه بسبب ما عليه من حقوق الناس ومظالمهم. وقال القاضي ابن العربي في العارضة: وامتناعه من الصلاة لمن ترك عليه ديناً تحذيراً عن التقحم في الديون لئلا تضيع أموال الناس، كما ترك الصلاة على العصاة زجراً عنها، حتى يجتنب خوفاً من العار، ومن حرمان صلاة الإمام وخيار المسلمين انتهى.

سیف اللہ

             دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

                     27/03/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ بن زینت خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب