021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈاکٹر کےلیے طے کردہ ڈسکاؤنٹ کو اپنے استعمال میں لانے کاحکم
70686جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

میں ایک میڈیسن  کمپنی میں کمپیوٹر پر بل بناتا ہوں ۔کمپنی کی طرف سے  مخصوص دوائی پر مخصوص ڈاکٹرز کے لیے اضافی ڈسکاؤنٹ  ہوتا ہے ،حالانکہ یہ دوائی عام مارکیٹ میں بغیر ڈسکاؤنٹ  کے فروخت ہوتی ہے ۔ سوال یہ ہےکہ اگر بل ڈاکٹر کے نام پر ڈسکاؤنٹ میں بن جائے  اور وہ دوائی عام مارکیٹ میں  بغیر ڈسکاؤنٹ کے فروخت کی جائے اور ڈسکاؤنٹ کے پیسے  میں خود  استعمال کرلوں یا میڈیکل ریپ والا ڈاکٹر کے نام پر ڈسکاؤنٹ لے کر خود استعمال کرلے  تو ایسا کرنا کیسا ہے ؟

تنقیح:کمپنی میں یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ڈسکاؤنٹ ڈاکٹر لے رہا ہے ،لیکن  ڈسکاؤنٹ کوئی اور لے لیتا ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں چونکہ ڈسکاؤنٹ صرف ڈاکٹر حضرات کے لیے ہوتا ہے ،لہذا  کسی اور کے لیے ڈاکٹر کا  نام استعمال کرکے ،اس ڈسکاؤنٹ کو اپنے استعمال میں لانا جائز  نہیں ہے ۔یہ خیانت اور  دھوکہ دہی  ہے، جس سے اجتناب لازم ہے۔

نیز اب تک دھوکے پر مشتمل  جتنی رقم اس غلط طریقے سے آپ نے یا کسی میڈیکل ریپ  والے نے حاصل کی ہے اس کو کسی طریقے سے دوبارہ کمپنی میں جمع کروانا لازم ہے،نیز اس فعل پر اللہ کے حضور توبہ و استغفار بھی لازم ہے ۔   

حوالہ جات
القرآن الکریم [النساء: 29]
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ }
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 98)
لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي هذه القاعدة مأخوذة من المجامع وقد ورد في الحديث الشريف «لا يحل لأحد أن يأخذ متاع أخيه لاعبا ولا جادا فإن أخذه فليرده» فإذا أخذ أحد مال الآخر بدون قصد السرقة هازلا معه أو مختبرا مبلغ غضبه فيكون قد ارتكب الفعل المحرم شرعا؛ لأن اللعب في السرقة جد فعلى ذلك يجب أن ترد اللقطة التي تؤخذ بقصد امتلاكها أو المال الذي يؤخذ رشوة أو سرقة أو غصبا لصاحبها عينا إذا كانت موجودة وبدلا فيما إذا استهلكت۔
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (2/ 512)
حكم الغصب: للغصب حكمان.
الحكم الأول: الحكم الدنيوي وهو عبارة عن ثلاثة أشياء:
الأول: رد العين في بعض الأحوال يعني تعين رد عين المغصوب للمغصوب منه وإعادتها إليه.
والثاني: تعين ضمان البدل.
والثالث، تخيير المغصوب منه بين أخذه عينا وطلبه بدلا.
الحكم الثاني: حكم أخروي وهو عبارة عن أنه إذا أخذ المال المأجور وهو عالم بأنه مال الغير أثم واستحق عذاب النار؛ لأن الغصب حرام وحرمته ثابتة بالآية الجليلة والحديث الشريف قال الله تعالى: {لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل} [النساء: 29] «وقال - صلى الله عليه وسلم -: من أخذ شبرا من الأرض طوقه الله تعالى من سبع أرضين» ، (الهداية والعيني، والقهستاني) وقد «قال - عليه الصلاة والسلام - في حجة الوداع يوم النحر في مكة المكرمة فإن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا إلى يوم تلقون ربكم. ألا هل بلغت؟ قالوا: نعم اللهم اشهد» .

واللہ سبحانہ و تعالی اعلم

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

06 ربیع الثانی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب