021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
Cracked software’sاستعمال کرنے اور ان کی آمدن کا حکم
70717جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

وہ تمام سوفٹ وئیرز جو پیسوں کے خریدنے پڑتے ہیں،مگر انٹرنیٹ پر وہ آسانی سے cracked مل جاتے ہیں،مثلا Adobe, Photoshop وغیرہ اور اس جیسے اور بھی،ان کو استعمال کرنا کیسا ہے؟

اگر کوئی شخص ان سوفٹ وئیرز کا استعمال کرکے پیسے کماتا ہے تو اس کی کمائی کیسی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سافٹ ویئرز کے کاپی رائٹ کے قوانین حقوق کی مالیت کے نظریہ پر مبنی ہے اور یہ نظریہ اتفاقی نظریہ نہیں،بلکہ شروع سے معتبر اہل علم کا اس میں اختلاف رہا ہے،چنانچہ ان اہل علم کے ہاں کتابوں کے حق تالیف کو محفوظ کرنے کا بھی شرعا کوئی اعتبار نہیں،حالانکہ سافٹ ویئرز کی بنسبت کتاب خریدنا عام لوگوں کے لیے آسان ہے،جبکہ اس کے بالمقابل سافٹ ویئرز کے کاپی رائٹ کے قوانین جن ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بنائے ہیں وہ ایک ایک سافٹ ویئر کی اتنی زیادہ قیمت مقرر کرتے ہیں کہ انہیں خریدنا ایک عام آدمی کے بس میں نہیں رہتا،اس لیے ان قوانین کا اعتبار کرنا ایک بڑے طبقے کو علم و فن سے محروم کرنے  اور بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری قائم رکھنے کے مترادف ہے،اس لیے ذاتی استعمال کی حد تک سافٹ ویئرز کے کاپی رائٹ کے قوانین کا شرعا اعتبار نہیں،یہ مصلحتِ عامہ اور حقوق مجردہ کی مالیت متفق علیہ نہ ہونے کا مشترکہ تقاضا ہے۔

لہذا اس طرح کے سوفٹ وئیرز کو استعمال کرنے اوران پر کام کرکے پیسے کمانے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے،تاہم اگر کوئی شخص انہیں خرید کر استعمال کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اس کے لیے خرید کر استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔

حوالہ جات
"رد المحتار" (4/ 518):
"مطلب: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة (قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها. أقول: وكذا لا تضمن بالإتلاف قال: في شرح الزيادات للسرخسي وإتلاف مجرد الحق لا يوجب الضمان؛ لأن الاعتياض عن مجرد الحق باطل".
"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية" (1/ 215):
"(أقول) ظاهر تقييد المؤلف الرجوع بالحيثية المذكورة أنه ليس له الرجوع لو قبل السلطان فراغه وقرره وحاصل ما ذكره السيد أحمد الحموي محشي الأشباه أن بعضهم قال لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالمال؛ لأنه رشوة وأن العلامة نور الدين عليا المقدسي في شرحه على نظم الكنز استخرج صحة ذلك من فرع ذكره السرخسي في مبسوطه وذكره ثم ذكر عن شرح المنهاج للشمس الرملي عن والده أنه أفتى بصحة ذلك أيضا وحاصل ما في الفتاوى الخيرية أنه لا يصح وأفتى به مرارا قال؛ لأن القائل بجوازه بناه على اعتبار العرف الخاص والمذهب عدم اعتباره وقد قال العلامة المقدسي أي في حاشيته على الأشباه الفتوى على عدم جواز الاعتياض عن الوظائف؛ لأنه حق مجرد فلا يجوز الاعتياض عنه كالاعتياض عن حق الشفعة اهـ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

08/ربیع الثانی1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب