021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث کی تقسیم
70746میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ایک عورت کا انتقال ہوگیا۔ اس کے ترکے میں پونے تین تولہ سونا، گھر کے برتن، کپڑے ، الماریاں وغیرہ ہیں۔ورثاء میں شوہر، دونابالغ بیٹیاں، والدین، تین بہنیں اور ایک بھائی(نابالغ) موجود ہیں۔ ان کی تقسیم کی وضاحت فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرحومہ نے بوقت انتقال مذکورہ سامان سمیت اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولی و غیر منقولی سازوسامان چھوڑا ہے وہ سب مرحومہ کا ترکہ ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے مرحومہ کا وہ قرض ادا کیا جائے جس کی ادائیگی مرحومہ کے ذمہ واجب ہو۔ اس کے بعد اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی(1/3) کی حد تک اس پر عمل کیا جائے۔ اس کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس کو کل 15 حصوں میں تقسیم کرکے شوہر کو 3 حصے( کل مال کا 20 فیصد) دیے جائیں ، دونوں بیٹیوں کو 8 حصے (53.3333 فیصد) دیے جائیں جو ان دونوں میں برابر تقسیم ہوں گے، والدین میں ہر ایک کو دو دو حصے ( 13.3333 فیصد) دیے جائیں۔ مرحومہ کے بہنوں اور بھائی کو میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا۔آسانی کے لیے ذیل کا نقشہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:

ورثاء

حصص

فیصدی حصہ

شوہر

3

20%

بیٹیاں

8

53.3333%

والد

2

13.3333%

والدہ

2

13.3333%

ٹوٹل

15

100%

 

حوالہ جات
الدر المختار (6/ 770)
(وللأب والجد) ثلاث أحوال الفرض المطلق وهو (السدس) وذلك (مع ولد أو ولد ابن) والتعصيب المطلق عند عدمهما والفرض والتعصيب مع البنت أو بنت الابن.
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 772)
 اعلم أن للأخوات لغير أم سبعة أحوال خمسة تتحقق في الأخوات لأبوين، والأخوات لأب: وهي الثلاثة المارة في بنات الصلب.والرابعة: أنهن يصرن عصبات مع البنات أو بنات الابن.

سیف اللہ

             دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

                                                                                         17/04/1442ھ              

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ بن زینت خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب